↧
Pain of Pakistani Mother by Ansar Abbasi
↧
Imran Khan and Pakistan Army
↧
↧
Water Crisis in Pakistan
پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو پانی کی شدید قلت کا شکار ہیں۔ ایمرجنسی کی صورت میں پاکستان کے پاس صرف 30 دن پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہے، جب کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے حامل ایسے ممالک کے لیے 100 دن کی سفارش کی گئی ہے۔ پاکستان کو دنیا کے ان ممالک کی درجہ بندی میں رکھا گیا ہے جو سب سے زیادہ پانی کی کمی کے شکار ہیں، پانی کی کمی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان میں توانائی کا بحران ہے، توانائی کا بحران نہ صرف معیشت بلکہ پاکستانیوں کے مفادات کو بھی نقصان دے رہا ہے۔ اکثر شہری اس کے لیے احتجاج کرتے ہیں اور اپنی حکومتوں سے اس کا حل مانگتے ہیں اور یہ احتجاج اکثر پرتشدد واقعات میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ آبادی کے بے پناہ اضافے سے ملکی ہیئت تبدیل ہو رہی ہے، پانی کی طلب رسد سے زیادہ ہے، دریائے سندھ میں پانی کا بہاؤ کم ہو رہا ہے۔
انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے اعداد و شمار کے مطابق تربیلا ڈیم میں پانی کی سطح 1506.79 اور منگلا ڈیم میں 1192.3 فٹ ہے۔ تربیلا ڈیم میں پانی کی آمد 2 لاکھ 20 ہزار کیوسک اور اخراج ایک لاکھ 96 ہزار 600 کیوسک جب کہ منگلا ڈیم میں پانی کی آمد 46 ہزار 389 کیوسک اور اخراج 15 ہزار کیوسک ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تمام صوبوں کو کوٹہ اور طلب کے عین مطابق پانی فراہم کیا جا رہا ہے ۔ پنجاب کی طلب اور کوٹہ کے مطابق ایک لاکھ 34 ہزار 300 ، سندھ کو 195000، بلوچستان کو 14000 جب کہ خیبر پختونخوا کو 3600 کیوسک پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ دریائے سندھ سے کراچی کو جس کی آبادی پونے دو کروڑ کے قریب ہے کو مزید 7 کروڑ گیلن پانی کی فراہمی کا منصوبہ ہے لیکن فی الوقت کراچی کے لیے منظور شدہ 1200 کیوسک میں سے تقریباً 70 ایم جی ڈی پانی کم دیا جا رہا ہے اور افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ دسمبر 2013 تک کراچی میں پانی صارفین کی تعداد صرف 3 لاکھ ہے یعنی اس وقت پانی استعمال کرنے والوں کی بڑی تعداد پانی بل ادا نہیں کرتی ہے۔
جب کہ دوسری طرف پانی چوری کرکے فروخت کرنے کا کاروبار عروج پر ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق بلدیہ، شیرشاہ، کورنگی، پاک کالونی، قصبہ، کنٹونمنٹ بورڈ، پی اے ایف، ماڑی پور، مسروربیس اور دیگر اداروں کے انتظامی علاقوں میں قائم غیر قانونی ہائیڈرنٹس واٹر بورڈ کی بلک فراہمی آب کی لائنوں سے ناجائز کنکشن حاصل کرکے پانی چوری کرکے فروخت کیا جا رہا ہے۔ اس کے سبب واٹر بورڈ شہریوں کو منصفانہ و مساویانہ طور پر پانی فراہم کرنے سے قاصر ہے، کراچی کے بہت سے علاقے واٹر بورڈ کی ٹیم کے لیے نو گو ایریا بنے ہوئے ہیں جہاں ٹیم کنکشن منقطع کرنے نہیں جاسکتی، انھیں ڈرایا دھمکایا جاتا ہے اور فائرنگ کے واقعات بھی رونما ہوچکے ہیں۔ ان غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے قیام سے ایک طرف تو واٹر بورڈ کو مالی طور پر نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے تو دوسری طرف واٹر بورڈ کا سسٹم تباہ ہونے کا خدشہ ہے، یہ عناصر روز بروز مضبوط ہوتے جا رہے ہیں اور قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جا رہی ہے، یہ نہایت حساس نوعیت کا معاملہ بن گیا ہے، غیر قانونی ہائیڈرنٹس کی نشاندہی پر ان کے خلاف کارروائی بھی کی جاتی ہے، ان کے کنکشنز منقطع کیے جاتے ہیں، سازو سامان ضبط کیا جاتا ہے اور ایف آئی آر تک بھی درج کرائی جاتی ہے لیکن چند روز بعد یہ ہائیڈرنٹس دوبارہ کھل جاتے ہیں جب کہ پولیس انھیں دوبارہ قائم ہونے سے نہیں روک پاتی، حالات کا تقاضہ ہے کہ ایک بھرپور اور منظم آپریشن کرکے ان کا جڑ سے خاتمہ کردیا جائے۔
برطانوی اخبارگارجین کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایشیا میں آبی وسائل پر قبضے کی خطرناک علاقائی دوڑ جاری ہے، ہمالیائی خطے میں پاکستان سمیت 4 ایشیائی ممالک 4 سو سے زائد ڈیمز بنائیں گے، ان میں بھارت 292، چین 100، نیپال13 اور پاکستان 9 سے زائد ہائیڈرو الیکٹرک منصوبے بنا رہے ہیں، دنیا کے سب سے بڑے پہاڑی سلسلے میں ان ڈیموں کی تعمیر خطے اور ماحول کے لیے تباہی لاسکتی ہے۔ اگر 4 سو سے زائد ڈیم مکمل ہوگئے تو ان سے ایک لاکھ 60ہزار میگاواٹ بجلی حاصل کی جاسکے گی جو برطانوی استعمال سے 3 گنا زیادہ ہے۔ ڈیمز کی تعمیر سے گلیشیر کے بہاؤ میں 20 فیصد کمی ہوجائے گی۔ اس سے نہ صرف دریاؤں میں پانی کی کمی ہوگی بلکہ خطے میں سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہوگا۔ بھارت اور چین اس وادی کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔
آیندہ 20 برس میں ہمالیہ دنیا کا خطرناک خطہ بن جائے گا جب کہ چین دنیا کی 40 فیصد آبادی کے پانی پر کنٹرول حاصل کرلے گا۔ چین اور بھارت کے تنازعات زمین سے پانی پر منتقل ہو رہے ہیں جب کہ بھارتی ڈیم منصوبوں سے بنگلہ دیش بھی خوفزدہ ہے کیونکہ دریاؤں کے پانی میں 10 فیصد کمی اسے بنجر بنادے گی۔ چین اور بھارت نے گزشتہ 30 سالوں میں ڈیمز کی تعمیر کی خاطر کروڑوں افراد کو بے گھر کیا ہے لیکن سرکاری سطح پر ان کے اعداد و شمار نہیں دیے گئے۔ رپورٹ کے مطابق ایک ڈیم کی تعمیر سے دریاؤں کے بہاؤ میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے جو 20 ہزار افراد کو متاثر کرتی ہے، اس سے زیر زمین پانی میں بھی کمی ہوجاتی ہے۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق گلیشیرز سکڑنے کی وجہ سے جنوبی ایشیا میں پانی کی قلت نہیں ہوگی، کوہ ہمالیہ کی چٹانوں کے گلیشیرز بڑی تعداد میں سکڑ رہے ہیں جس کی وجہ سے دریاؤں میں پانی کی سطح میں اضافہ ہوگا اور رواں صدی میں لوگوں کی پانی کی ضروریات نہیں پوری ہوگی۔ محققین کا کہنا ہے کہ 2100 میں ہمالیہ کے دو بڑے گلیشیرز میں نصف حد تک کمی واقع ہوگی۔
اگرچہ یہ حوصلہ افزا خبر ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سارے عوامل نے مل کر کرہ ارض کو جانداروں کے لیے خطرناک بنادیا ہے۔ اس معاملے میں ترقی یافتہ ممالک سب سے آگے ہیں۔ انسان نے اگر ان معاملات پر توجہ نہ دی تو پھر ساری ترقی دھری کی دھری رہ جائے گی۔ پاکستان، بھارت اور چین ہمالیہ اور قراقرم کے سلسلے میں واقعے ہیں۔ یہ دنیا کے بلند ترین اور طویل ترین پہاڑی سلسلے ہیں۔ یہ قدرت کا انمول تحفہ ہے جو اس خطے کو عطا کیا گیا ہے۔ اس سارے وسیع و عریض خطے میں بہنے والے تمام دریا، ندی نالے، چشمے اور جھرنے ان ہی پہاڑی سلسلوں سے پھوٹتے ہیں۔ پاکستان، بھارت، چین، نیپال، بنگلہ دیش، افغانستان یہاں تک کہ برما کے حکمرانوں کو ایسی پالیسی تیار کرنی چاہیے جس سے ہمالیائی سلسلے سے بھرپور فائدہ بھی لیا جاسکے اور اس سے ماحولیاتی انتشار بھی پیدا نہ ہو۔ یہی انسانی ذہانت کا کمال ہوگا۔
Water Crisis in Pakistan
↧
ثنا خوانِ تقدیسِ مغرب
↧
یہ مذاکرات
وزیراعظم راجیو گاندھی نہرو خاندان کی تیسری نسل تھے‘ یہ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد کانگریس کے سربراہ اور بھارت کے وزیراعظم بنے‘ بہرامنام راجیو گاندھی کے خصوصی مشیر تھے‘ راجیو گاندھی نے 1987ء میں راجستھان کی سرحد پر فوج تعینات کر دی‘ بھارتی فوج جنگ کے لیے تیار کھڑی تھی‘ وزیراعظم کے اشارے کی دیر تھی اور بھارتی فوج پاکستان پر حملہ کر دیتی‘ ان دنوں پاکستان کی کرکٹ ٹیم انڈیا کے دورے پر تھی‘ پاکستان اور انڈیا کے درمیان جے پور میں ٹیسٹ جاری تھا‘ پاکستان اور بھارت کے درمیان خوفناک ٹینشن تھی‘ جنگ کسی بھی وقت چھڑ سکتی تھی لیکن پھر اچانک ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔
جنرل ضیاء الحق اپنے صدارتی جہاز میں سوار ہوئے اور بھارت کی طرف سے دعوت کے بغیر دہلی روانہ ہو گئے‘ جنرل صاحب کرکٹ میچ دیکھنے انڈیا گئے‘ جنرل ضیاء کی اس غیر سفارتی حرکت نے بھارت میں سنسنی پھیلا دی‘ راجیو گاندھی پاکستانی صدر سے ملاقات نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن کابینہ اور اپوزیشن نے انھیں دہلی ائیرپورٹ جانے اور جنرل ضیاء الحق کا استقبال کرنے پر مجبور کر دیا‘ اس کے بعد کیا ہوا‘ یہ آپ بہرامنام کی زبانی ملاحظہ کیجیے۔
’’کابینہ اور اپوزیشن لیڈروں نے راجیو گاندھی کو سمجھایا‘ آپ اگر پاکستانی صدر کے استقبال کے لیے ائیرپورٹ نہیں جائیں گے تو عالمی سطح پر بھارت کی بہت بے عزتی ہو گی چنانچہ راجیو گاندھی ہمارے اصرار پر نیو دہلی ائیرپورٹ پہنچ گئے‘ پاکستانی صدر طیارے سے اترے‘ راجیو نے جنرل ضیاء سے ہاتھ ملایا لیکن اس نے جنرل ضیاء الحق کے چہرے کی طرف نہیں دیکھا‘ راجیو نے ہاتھ ملاتے ہوئے مجھے حکم دیا‘ بہرامنام جنرل صاحب میچ دیکھنے آئے ہیں‘ انھیں فوراً روانہ ہو جانا چاہیے‘ آپ ان کے ساتھ جاؤ اور ان کا خیال رکھنا‘ یہ جنرل ضیاء الحق کی سیدھی سادی بے عزتی تھی لیکن میں جنرل ضیاء کا رد عمل دیکھ کر حیران رہ گیا‘ وہ نہ جانے کس مٹی کے بنے ہوئے تھے‘ وہ اس بے عزتی کے باوجود مسکراتے رہے‘ جنرل ضیاء الحق جے پور کے لیے روانہ ہونے لگے تو وہ بھارتی وزیراعظم کی طرف دیکھ کر مسکرائے اور نہایت ہی ٹھنڈے لہجے میں بولے‘ مسٹر راجیو !آپ پاکستان پر حملہ کرنا چاہتے ہیں‘ آپ ضرور کریں لیکن آپ ایک بات یاد رکھئے گا‘ اس حملے کے بعد دنیا ہلاکو خان اور چنگیز خان کو بھول جائے گی‘ یہ صرف راجیو گاندھی اور ضیاء الحق کو یاد رکھے گی کیونکہ یہ روایتی جنگ نہیں ہوگی‘ یہ نیو کلیئر وار ہو گی اور جنگ میں ہو سکتا ہے پورا پاکستان تباہ ہو جائے مگر اس کے باوجود دنیا میں مسلمان رہیں گے لیکن آپ یہ یاد رکھنا اس جنگ کے بعد دنیا میں کوئی ہندو نہیں بچے گا‘‘۔
بہرامنام کے بقول ’’یہ فقرے بولتے وقت ضیاء الحق کی آواز اور آنکھوں میں اتنی سختی اور اتنا عزم تھا کہ وہ مجھے اس وقت دنیا کے خطرناک ترین شخص دکھائی دیے‘ راجیو گاندھی کی پیشانی پر پسینہ آگیا جب کہ میری ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی پھیل گئی‘ جنرل ضیاء الحق نے یہ فقرے بڑی ہی سنجیدگی سے کہے‘ وہ اس کے بعد مسکرائے اور مجھے اور راجیو گاندھی کو چھوڑ کر وہاں موجود تمام لوگوں کے ساتھ بڑے تپاک سے ہاتھ ملایا‘ وہ بھارتی وزیراعظم کو جوہری جنگ کی دھمکی دینے کے باوجود بہت خوش اور ہلکے پھلکے موڈ میں دکھائی دے رہے تھے‘ میں ان کے اعصاب اور اداکاری پر حیران رہ گیا‘‘۔
بہرامنام کے تاثرات سو فیصد درست تھے‘ جنرل ضیاء الحق کو اللہ تعالیٰ نے انتہائی مضبوط اعصاب‘ اپنی اندرونی کیفیات کو چھپانے‘ اداکاری اور انکساری کی بے پناہ صلاحیتوں سے نواز رکھا تھا‘ یہ دوسروں کواپنے فیصلوں کی کانوں کان خبر نہیں ہونے دیتے تھے‘ جنرل ضیاء الحق کے اعصاب کس قدر مضبوط تھے‘ آپ مزید تین واقعات ملاحظہ کیجیے‘ جنرل ضیاء الحق نے 5 جولائی 1977ء کو مارشل لاء لگایا‘ یہ مارشل لاء کی رات تک وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے ملتے رہے اور ذوالفقار علی بھٹو جیسا شاطر اور اڑتی چڑیا کے پر گننے والا شخص بھی جنرل ضیاء الحق کی نیت نہ بھانپ سکا‘ بھٹو صاحب جنرل ضیاء الحق سے اس قدر مطمئن تھے کہ 5 جولائی کی رات جب فوج وزیراعظم ہاؤس میں داخل ہوئی تو بھٹو صاحب نے جنرل ضیاء الحق کو فون کیا اور ان سے کہا ’’ ضیاء مجھے گھر کے اندر فوجی نظر آ رہے ہیں‘ چیک کرو یہ کون لوگ ہیں‘‘ دوسرا واقعہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی رات تھی‘ جنرل ضیاء الحق نے 3 اپریل 1979ء کے دن بھٹو صاحب کو پھانسی دینے کا حکم دیا‘ یہ اس حکم کے باوجود معمول کے مطابق کام کرتے رہے‘ رات کو گھر گئے‘ کھانا کھایا‘ بیگم صاحبہ کے ساتھ روٹین کی گفتگو کی اور سو گئے‘ بیگم صاحبہ تک کو ان کے فیصلے کی بھنک نہیں پڑی۔
اگلی صبح چار اپریل کو وزارت خارجہ میں میٹنگ تھی‘ جنرل ضیاء الحق مقررہ وقت پر میٹنگ کے لیے پہنچے‘ کرسی صدارت پر بیٹھے اور بڑے اطمینان سے کہا ’’ میں میٹنگ سے پہلے ایک اناؤنسمنٹ کرنا چاہتا ہوں‘ آج صبح عدالت کے حکم پر سابق وزیراعظم مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کو راولپنڈی جیل میں پھانسی دے دی گئی ہے‘ ان کی میت ان کے آبائی گاؤں گڑھی خدا بخش میں پورے اعزاز کے ساتھ دفن ہو چکی ہے‘ آپ لوگ ایجنڈا کھولیں اور میٹنگ شروع کریں‘‘ یہ اعلان سن کر میٹنگ میں موجود تمام لوگوں کے چہروں کا رنگ اڑ گیا اور ٹانگیں کانپنے لگیں مگر جنرل ضیاء الحق پورے اطمینان سے ایجنڈا ڈسکس کرتے رہے ‘ انھوں نے اس کے بعد بھٹو کے بارے میں منہ سے ایک لفظ نہیں نکالا‘ آپ تیسرا واقعہ بھی ملاحظہ کیجیے‘ ضیاء الحق نے 27 مئی 1988ء کی سہ پہر محمد خان جونیجو کی حکومت برطرف کر دی‘ جنرل ضیاء الحق نے اس سے ایک دن بعد چین کے دورے پر جانا تھا‘ جنرل ضیاء الحق 27 مئی کا سارا دن چین کے دورے پر بریفنگ لیتے رہے‘ وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب علی خان اور وزارت خارجہ کے اعلیٰ حکام جنرل صاحب کو آرمی ہاؤس راولپنڈی میں چین کے بارے میں بریف کرتے رہے‘ جنرل ضیاء الحق نے دورے کے ایک ایک نقطے کے بارے میں بریفنگ لی‘ میٹنگ ختم ہوئی تو جنرل صاحب نے ڈی جی ایسٹ ایشیا سے پوچھا ’’ میں نے کل شام بیجنگ میں جو تقریر کرنی ہے‘ آپ نے وہ پرنٹ کروا لی‘‘ ڈی جی نے جواب دیا ’’سر تقریر پرنٹنگ پریس جا چکی ہے‘ میں کل صبح اس کی کاپیاں ساتھ لے کر آؤں گا‘‘ جنرل ضیاء نے ان کی تعریف کی اور دن کے تین بجے وزیر خارجہ اور ڈی جی ایسٹ ایشیا کو رخصت کیا اور دو گھنٹے بعد محمد خان جونیجو کی حکومت برطرف کرنے کا اعلان کر دیا۔
شام چھ بجے صدر کے ملٹری سیکریٹری بریگیڈیئر خاور نے وزیر خارجہ اور ڈی جی ایسٹ ایشیا کو فون کیا اور انھیں بتایا ’’صدر کل چین نہیں جا سکیں گے‘ آپ چینی حکومت سے معذرت کر لیں‘‘ آپ جنرل ضیاء الحق کے اعصاب اور باتوں کو خفیہ رکھنے کی صلاحیت ملاحظہ کیجیے‘ وہ محمد خان جونیجو کی حکومت کے خاتمے کا پورا منصوبہ بنا چکے تھے‘ وہ جانتے تھے‘ وہ کل چین نہیں جا سکیں گے لیکن اس کے باوجود انھوں نے چین کے دورے پر چار گھنٹے میٹنگ کی اور صاحبزادہ یعقوب علی خان سمیت وزارت خارجہ کے تمام جغادریوں کو ایک لمحے کے لیے یہ احساس نہیں ہونے دیا یہ کل چین نہیں جائیں گے‘ یہ تمام لوگ اپنے سوٹ کیس پیک کر رہے تھے اور جنرل ضیاء جونیجو حکومت کی برطرفی کا پروانہ تیار کر رہے تھے ‘ آپ کو زندگی میں شاید ہی اتنے مضبوط اعصاب کا کوئی اور شخص‘ کوئی اور لیڈر ملے۔
میاں نواز شریف جنرل ضیاء الحق کے سیاسی وارث ہیں‘ جنرل ضیاء الحق میاں صاحب کو سیاست میں بھی لے کر آئے اور یہ انھیں وزیراعظم بھی بنانا چاہتے تھے لیکن میاں نواز شریف کیونکہ اس وقت نو آموز تھے‘ یہ سیاسی داؤ پیچ سے واقف نہیں تھے چنانچہ جنرل صاحب نے انھیں سیاسی ٹریننگ میں ڈال دیا‘ جنرل ضیاء الحق میاں شہباز شریف پر بھی مہربان تھے‘ میاں شہباز شریف ان دنوں لاہور چیمبر آف کامرس کے صدر تھے‘ جنرل ضیاء الحق انھیں بھی صدارتی دوروں میں ساتھ لے کر جاتے تھے‘ میاں برادران نے جنرل ضیاء الحق سے بہت کچھ سیکھا‘ میاں نواز شریف میں جنرل ضیاء الحق جیسی سادگی اور انکسار بھی ہے‘ یہ لوگوں سے جھک کر ملتے ہیں‘ یہ جنرل ضیاء الحق کی طرح گاڑی تک چھوڑنے بھی جاتے ہیں‘ یہ مخاطب کی بات بھی غور سے سنتے ہیں اور یہ جنرل ضیاء الحق کی طرح ملنے والے کا دل بھی موہ لیتے ہیں لیکن ان تمام خوبیوں کے باوجود میاں نواز شریف کے اعصاب مضبوط نہیں ہیں‘ یہ دل کی بات دل میں بھی نہیں رکھ پاتے‘ یہ ہر ملنے والے سے مشورہ کرتے ہیں اور میاں صاحب کے سوالات ان کا مافی الضمیر‘ ان کی پلاننگ دوسرے لوگوں کے سامنے کھول کر رکھ دیتے ہیں مثلاً آپ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا معاملہ ہی لے لیجیے‘ پورے پاکستان کو میاں نواز شریف اور حکومت کی ایک ایک موومنٹ کا علم ہوتا ہے‘ ملک کے خفیہ ادارے مذاکرات کے اس عمل کے ساتھ نہیں ہیں‘ یہ حقیقت بھی پوری دنیا جانتی ہے‘ میاں نواز شریف آپریشن نہیں کرنا چاہتے‘ یہ بھی سب جانتے ہیں کیونکہ آپریشن کی صورت میں شہروں کے اندر خانہ جنگی ہو گی اور حکومت میں اس خانہ جنگی سے نبٹنے کی صلاحیت نہیں۔
میاں نواز شریف آپریشن کرکے فوج کے ہاتھ بھی مضبوط نہیں کرنا چاہتے‘ امن کا سہرہ فوج کے بجائے جمہوری حکومت کے سر دیکھنا چاہتے ہیں چنانچہ یہ مذاکرات کے لیے مسلسل کوششیں کررہے ہیں‘ پورا ملک جانتا ہے میاں نواز شریف مذاکرات کی تین کوششیں کر چکے ہیں لیکن عین وقت پر ایک خفیہ ہاتھ سامنے آتا ہے اور یہ مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کر کے واپس چلا جاتا ہے‘ پورا ملک جانتا ہے حکومت اب یہ مذاکراتی کمیٹی توڑ دے گی‘ نئی کمیٹی بنے گی اور یہ کمیٹی ایک اور کوشش کرے گی مگر وہ کوشش بھی کامیاب نہیں ہو گی اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک امریکا خطے سے نکل نہیں جاتا‘ یہ حقائق پوری دنیا جانتی ہے اور یہ حقائق میاں صاحب کی باڈی لینگویج سے نشر ہو رہے ہیں‘ میری میاں صاحب سے درخواست ہے ‘ آپ اگر مذاکرات کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر آپ جنرل ضیاء الحق کی طرح اپنے اعصاب مضبوط بنا لیں اور آپ جو کرنا چاہ رہے ہیں اس کی خبر آپ کے اپنے کانوں تک کو نہیں ہونی چاہیے‘ آپ کامیاب ہو جائیں گے ورنہ دوسری صورت میں یہ مذاکرات آپ کو لے کر بیٹھ جائیں گے کیونکہ یہ مذاکرات محض مذاکرات نہیں ہیں‘ یہ میک آر بریک ہیں‘ یہ بنا دیں گے یا مکمل طور پر بگاڑ دیں گے۔
↧
↧
آپ کی اولاد کا مستقبل
میرے اِکا دُکا پڑھنے والوں میں سے ایک قاری نے فون کر کے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں نے مزاح نگاری شروع کر دی ہے۔ میں نے اس سے سوال کے اسباب سے متعلق تفتیش کی تو پتہ چلا کہ موصوف کو میرا بالواسطہ انداز بیان پسند نہیں ہے۔ ان کے خیال میں جیسے میں پہلے لکھتا تھا یعنی براہ راست اور لگی لپٹی کے بغیر وہ طریقہ کار زیادہ موثر تھا۔ طنز اور مزاح میں جملہ خیال پر بھاری ہو جاتا ہے۔ پیغام ہلکے پھلکے انداز میں پہنچ تو جاتا ہے لیکن اپنا وزن کھو دیتا ہے۔ میں نے ان سے اتفاق نہیں کیا لیکن چونکہ انھوں نے وضاحت طلب کی تھی میں نے جواب تفصیل سے دیا۔ یہ اصول اپنانے کی بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ ہم سیدھی بات سننے کا حوصلہ کھو چکے ہیں۔ سچ سننا اور وہ بھی خالص سچ کسی کو قابل قبول نہیں۔ حکومت اور حزب اختلاف سچ کی زد میں آنے کے بعد تمام ہتھیار استعمال کرتے ہوئے لکھنے والے کی ایسی کی تیسی کر دیتے ہیں۔ قاری کے پسند کے لیڈر یا شخصیت کے بارے میں دو تنقیدی جملے احتجاج کا بگولہ بلند کر دیتے ہیں۔ کسی کے نظریے کے خلاف لکھا جائے تو وہ نہ خود سوتا ہے نہ آپ کو سونے دیتا ہے۔
چونکہ آج کل فون نمبر ہر کسی کو دستیاب ہے۔ لہذا ایسے ایسے پیغام آتے ہیں کہ خدا کی پنا ہ۔ جو کوئی ایس ایم ایس لکھ سکتا ہے وہ خود کو تجزیہ نگار سمجھتا ہے۔ ایسے میں سیدھی بات زندگی اجیرن کر سکتی ہے۔ بڑے معاملات پر براہ راست انداز سے سچ لکھنا اور بھی خطرناک ہے۔ جس ملک میں ریاست اور اس کے طاقت ور ترین ادارے حقائق سے منہ چھپا کر پھر رہے ہوں، جہاں پر کسی میں ریاست پر حملوں کے خلاف پریس ریلیز جاری کرنے کی ہمت نہ ہو، جب سب کے سب قومی فکر کے معاملات کو چھوڑ کر پلاٹوں اور پرمٹوں کی خریدو فروخت میں خود کو مصروف رکھے ہوئے ہوں۔ وہاں پر سچی بات کون سنے گا اور کرنے والے کی جان بخشی کون کرے گا۔ ان حالات میں مجھے مجبوراً اپنا پیغام پہنچانے کے لیے وہی طرز تحریر اپنانا پڑا ہے جس کے نقصانات بھی کم ہیں اور جو چھپ بھی سکتا ہے۔ (اس جملے میں لکھنے اور چھاپنے والے کی جو مجبوری چھپی ہوئی ہے اس پر کبھی ایک مکمل کتاب لکھوں گا، فی الحال ایک جملے پر ہی اکتفا کیجیے)۔ اس کالم میں بھی آپ کو میرا قلم ترچھا ہی نظر آئے گا۔ جو قارئین اس کو پسند نہیں کر رہے ان سے گزارش ہے کہ صبر کا دامن نہ چھوڑیں۔ حالات بہتر ہوتے ہی سیدھے قلم سے مکمل روشنائی استعمال کرتے ہوئے لکھوں گا۔
آیئے اب آج کے موضوع پر بات کرتے ہیں۔ اگر آپ نے اپنی اولاد کے لیے کسی شعبے کا انتخاب کر لیا ہے تو اپنے منصوبے ترک کر دیجیے۔ اس کو ڈاکٹر یا انجنیئر بنانے کی ضرورت نہیں۔ نہ بزنس مینجمینٹ سکھانے کی ضرورت ہے نہ آئی پروفیشنل بنانے کی۔ قانون کی تربیت اور اس میں ڈگری حاصل کرنا بھی فضول ہے۔ لکھنے پڑھنے والے شعبے یعنی تحقیق، تدریس، صحافت اور ان جیسے دوسرے غیر ضروری پیشے جیسے معیشت اور ترقیاتی کاموں کا شعبہ وغیرہ بھی آپ کی اولاد کے مستقبل کی ضمانت نہیں دے سکتے یا کم از کم آپ وہ تمام خواب پورے نہیں کر سکتے جو تمام والدین اپنے بچوں کے لیے دیکھتے ہیں۔ ہمارے لیے بہترین شعبہ سیاست کا ہے۔ دیکھنے میں مشکل لگتا ہے۔ لیکن اس کے فوائد کی فہرست دیکھیں تو یہ مشکلات بچوں کا کھیل معلوم ہوتی ہیں۔ یہ واحد کاروبار ہے جس میں منافع سرمایہ کاری سے سیکڑوں، ہزاروں اور لاکھوں گنا زیادہ ہے۔ آپ دیکھ لیجیے پاکستان میں ڈگری کے بغیر سیاست دان بہت ملیں گے۔ مگر دولت کے بغیر کوئی نہ ہو گا۔
اس شعبے میں آنے کے بعد آپ یہ محسوس کریں گے کہ بہت سے ایسے قوانین جو سب پر لاگو ہیں آپ ان سے مبرا ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس پر قوم کو یقین کرنا پڑتا ہے چونکہ آپ ایک ایسے انتخابی عمل کے ذریعے آئے ہیں جس میں آپ نے عوام کے ٹیکسوں سے ترقیاتی کام کر کے اپنا نام بنایا ہے اور پھر انھی کو احسان مند کرتے ہوئے انھی کے ووٹوں کے ذریعے ان پر حکومت کرنے کا حق بھی حاصل کیا ہے۔ کمال ہے یا نہیں۔ نوٹ بھی عوام کے ووٹ بھی عوام کے۔ سرداری اور کاروباری فائدے سب آپ کے۔ ٹیکس وغیرہ دینے کی زحمت تو کم ہی کرنی پڑتی ہے اور جب آپ کھربوں روپے کمانے کے بعد دس بیس ہزار یا چند لاکھ ٹیکس دے بھی دیتے ہیں تو اخباروں میں ایسے خبریں چھپتی ہیں جیسے آپ نے اس سر زمین پر احسان عظیم کیا ہے۔ آپ محلات میں رہ سکتے ہیں۔ درجنوں قیمتی گاڑیوں کے مالک ہو سکتے ہیں۔ آپ کی کلائی پر گھڑی کی قیمت سے پچاس اسکول بن سکتے ہیں۔
آپ نے اپنے بیٹے بیٹیاں، داماد، مامے چاچے، کزن، دوست یار، نوکر چاکر، کتے بلیاں، چرند پرند سب کے لیے ملک سے باہر بہترین انتظام کیا ہوا ہے۔ آپ کا زندگی گزارنے کا طریقہ مغل بادشاہوں جیسا ہے۔ لیکن پھر بھی ریاست کو چند ’’روپلیاں‘‘ دے کر آپ صحافیوں کا دل جیت سکتے ہیں۔ ویسے اگر آپ ٹیکس نہ بھی دیں تو کوئی خاص مسئلہ نہیں ہے جیسا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی ڈائریکٹری ہمیں بتا رہی ہے۔ مگر جو ایف بی آر کی ڈائریکٹری نہیں بتا رہی اس پر کوئی توجہ نہیں دے گا۔ چونکہ آپ شعبہ سیاست سے منسلک ہیں۔ مثلا کھربوں کے اثاثے رکھنے والے جو چند لاکھ ٹیکس دیتے ہیں وہ اس ریاست سے اس سے ہزار گنا زیادہ مراعات دوسر ے فوائد کے علاوہ حاصل بھی کرتے ہیں۔ اگر میں 57 ہزار ٹیکس دیکر اپنے علاقے میں تمام پٹواری اپنی مرضی کے لگوا سکتا ہوں تو مجھ سے آپ سالانہ نہیں روزانہ اتنا ٹیکس لے لیجیے میں پھر بھی فائدے میں رہوں گا۔ پچاسوں افراد میری خدمت پر مامور ہیں۔ گاڑی، سفر، ٹیلی فون، کھانا پینا اور بچوں کی تعلیم سب کچھ مفت ہے۔ اس سے بڑھیا سودا اور کیا ہو گا؟
ہاں یہ کالم ختم کرنے سے پہلے ایک اور فائدہ بھی گنواتا چلوں۔ آپ کرکٹ کھیلتے ہوں یا ٹوپیاں سیتے ہوں۔ چاہے آپ نے کبھی کوئی کتاب پڑھی ہو یا نہ پڑھی ہو آپ کے شوق اور ذوق جو بھی ہوں سیاست کے دروازے میں سے گزرنے کے بعد آپ ہر فن مولا ہو جاتے ہیں۔ حتی کہ آپ کو یہ بھی پتہ چل جاتا ہے کہ جنگیں کیسے لڑی جاتیں ہیں۔ عسکری لائحہ عمل کیسے بنتے ہیں۔ خود مختاری کے تحفظ کی پالیسیا ں کن عناصر سے ترتیب پاتی ہیں۔ آپ معیشت کو باریکیوں سمیت سمجھ لیتے ہیں۔ اگلے جہانوں میں ہونے والا حساب کتاب بھی آپ پر عیاں ہو جاتا ہے۔ اس طرح کی اور بڑی بڑی خوبیاں آپ سیاست میں آنے کے بعد فوراً پا لیتے ہیں (اس وجہ سے میں سمجھتا ہوں کہ آپریشن میں تیس یا چالیس فی صد کامیابی کی بات کر کے عمران خان نے حقیقت ہی بیان کی ہو گی۔ چونکہ وہ لیڈر ہیں لہذا وہ صحیح علم اور فہم رکھتے ہیں۔ حقائق کو چھوڑ دیجیے ان کی بات مان لیجیے۔ بالکل ویسے ہی جیسے آپ نواز شریف اور بلاول بھٹو کی باتوں کو سنجیدگی سے لیتے ہیں) قصہ مختصر اپنی اور اپنی اولادوں کے لیے بہتر مستقبل حاصل کیجیے۔ اسلامی ریئل اسٹیٹ آف پاکستان کے سیاسیات کے شعبے پر توجہ دیجیے آپ کبھی خسارے میں نہیں رہیں گے ۔۔۔
↧
پینتیس پنکچروں کی داستان
سازشوں اور گٹھ جوڑ کی اسلام آباد میں کبھی کمی نہیں رہی۔ فوجی آپریشنز، نجکاری کے مشکوک سودوں اور مشرف کی قسمت کے بارے میں افواہوں کے ساتھ ساتھ یہاں ’پینتیس پنکچروں‘ کی کہانی نے بھی ٹوئیٹر پر دھوم مچا دی تھی، اور اس کے بعد ٹیلیویژن اسکرین پر بھی اس پر بہت سے مباحثے دیکھنے میں آئے۔
ایک ہفتے پہلے پی ٹی آئی کے ایک رہنما نے پینتیس پنکچروں کے بارے میں ٹوئیٹ کیا تھا، بعد میں دوسروں نے بھی ان کی پیروی کی۔
پی ٹی آئی میں بہت سے لوگوں کو یہ یقین ہے کہ الیکشن کی رات نجم سیٹھی نے مسلم لیگ نون کے سربراہ اور موجودہ وزیراعظم نواز شریف کو فون کیا اور انہیں یقین دلایا کہ پینتیس پنکچر لگا دیے گئے ہیں۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین کے چیف آف سٹاف نعیم الحق جنہوں نے اس کے بارے میں ٹوئیٹ کیا تھا، کا فون پر ہونے والی بات چیت کے بارے میں کہنا ہے کہ اس کا انکشاف اہم مغربی طاقت کے ایک سفارت کار نے کیا تھا۔
پی ٹی آئی کے رہنما وضاحت کرتے ہیں کہ یہ وہ سفارتکار ہیں جن کے قبضے میں یہ ٹیپ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ پی ٹی آئی میں کسی نے یہ ٹیپ سنی ہے، لیکن اُدھر نجم سیٹھی نے دوٹوک الفاظ میں ان الزامات کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ الزام عائد کرنے والوں کے خلاف مقدمہ کرنے کا حق رکھتے ہیں۔
اس کے علاوہ پی ٹی آئی سے باہر ایک اینکر جنہوں نے اپنے ٹی وی شو میں اس اسکینڈل پر تفصیلی بات چیت کی تھی، اس ٹیپ کی موجودگی پر زور دیا، اگرچہ جب ان سے سوال کیا گیا تو انہوں نے تسلیم کیا کہ انہوں نے اس ٹیپ کو نہیں سناتھا۔
جب پیر دس فروری کو عمران خان نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے ’’پینتیس پنکچروں‘‘ کا ذکر کیا تو پی ٹی آئی خود کو ٹوئٹر کی سرگوشیوں میں خود کو محدود نہیں رکھ سکی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ نجم سیٹھی کی پی سی بی کے چیئرمین کے عہدے پر دوبارہ تقرری ’’پینتیس پنکچروں‘‘ کو فکس کرنے پر بطور انعام کی گئی ہے۔
سینیٹر پرویز رشید جو حکومت اور وزیراعظم کے ترجمان ہیں، نے ڈان کو بتایا کہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے نجم سیٹھی میں نقص اس وقت تلاش کرنے شروع کیے جب انہیں پی سی بی کا چیئرمین مقرر کیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس سے پہلے انہیں ان کے ساتھ کوئی پریشانی نہیں تھی۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ عمران خان سپریم کورٹ میں الیکشن میں دھاندلی کے معاملے پر پی ٹی آئی کے مقدمے کی سماعت میں پیش ہوئے تھے۔
پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ سے کہا تھا کہ وہ قومی اسمبلی کے چار حلقوں این اے 122، 125، 110 اور 154 میں ووٹروں کی تصدیق کا حکم جاری کرے۔ اس سماعت، ٹوئیٹر پر الزامات اور نجم سیٹھی کی پی سی بی میں واپسی نے باآسانی سازشوں کا تانا بانا بُن دیا، اور لوگوں کی بڑی تعداد کو اپنی جانب متوجہ کرلیا۔
درحقیقت مئی کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے الزام کے ذریعے پی ٹی آئی کا مقصد سوائے اس کے کچھ نہیں ہے کہ اس وقت لوگوں کی زیادہ سے زیادہ توجہ حاصل کی جائے۔
اس وقت زیادہ تر سیاستدان نئی حکومت اور اسمبلیوں کے ساتھ مصروف ہیں، جبکہ سڑکوں پر لوگ اور نیوز چینلز میں سے بہت سے توانائی، دہشت گردی، امن مذاکرات، کراچی آپریشن اور ہندوستان پاکستان کے تعلقات پر ایک نئے تنازعے پر تبادلۂ خیال کررہے ہیں۔
ان میں سے چند کی دلچسپی الیکشن میں دھاندلی پر مرکوز رہی، جب سے پی ٹی آئی نے اس پر بات کرنا شروع کی تھی۔لیکن وفاقی حکومت نے جب ذکاء اشرف کو بے ڈھنگے پن سے برطرف کیا اور پی سی بی کے سربراہ کے عہدے پر نجم سیٹھی کو دس فروری کو واپس لے آئی تو اس وقت زیادہ سے زیادہ چند لوگ تھے جو نواز شریف کے ساتھ سابق قائم مقام وزیراعلٰی کے تعلقات کے بارے میں تعجب کا اظہار کررہے تھے۔
اور پھر پی ٹی آئی کے الزامات نے ان لوگوں کو ایک سادہ جواب فراہم کرنے کی کوشش کی، جو اس طرز کا کچھ امکان دیکھ رہے تھے۔ نجم سیٹھی کہہ چکے ہیں کہ وہ خود پر الزامات عائد کرنے والوں کو عدالت میں لے جائیں گے۔
تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ پی ٹی آئی کا درحقیقت مقصد کیا تھا۔ یہ ایک تنازعہ کو شروع کرنے کی کوشش ہوسکتی ہے، لیکن پی سی بی کے شورشرابے کے باوجود اس کا وقت مثالی نہیں تھا۔
دہشت گردی کے حملوں کی لہر اور طالبان کے ساتھ مذاکرات میں اُتار چڑھاؤ کے ساتھ یہاں اس بات کا امکان بہت محدود تھا کہ لوگوں کی توجہ انتخابی دھاندلیوں پر مرکوز ہوگی۔
شاید پی ٹی آئی کو آخر تک اس تنازعے کی توقع نہیں تھی۔ ایسا ہوسکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ پنکچر کی داستان کے بارے میں پوری پارٹی کو مطلع نہیں کیا گیا تھا۔ مثال کے طور پر پارٹی کے صدر جاوید ہاشمی نے اس تنازعے کے بارے میں مکمل لاعلمی کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’’مجھے اس بارے میں کچھ بھی اندازہ نہیں کہ نجم سیٹھی پر کیا الزام عائد کیا جارہا ہے۔‘‘
قطع نظر اس کے کہ یہ تنازعہ فوری طور پر ختم ہوجاتا ہے یا نہیں، پینتیس پنکچر کا طوفان یہ ظاہر کرتا ہے کہ پی ٹی آئی، مسلم لیگ نون پر حملے کا کوئی موقع گنوانا نہیں چاہتی۔
پی ٹی آئی خود کو پنجاب کے لیے بطور ایک مدّمقابل کے دیکھتی ہے اور اگر یہ اگلے الیکشن میں ایک اہم انتخابی حریف کے طور پر اُبھرنا چاہتی ہے، یہ کسی بھی طرح کے حملے کے مواقع کو گنوانے کی متحمل نہیں ہوسکتی، جبکہ یہ موقع خود اس کے سامنے پیش کیا جارہا ہو۔
↧
رابرٹ گیٹس کے چشم کشا انکشافات
آٹھ امریکی صدور کے تحت کام کرنے والے ممتاز رہنما ***** اکیسویں صدی میں دو بڑی جنگیں بھگتانے والے تیزفہم سابق وزیر دفاع کی متنازع آپ بیتی سے اقتباسات جس نے امریکہ میں ہلچل مچا دی
’’بزدل جب محفوظ ہو جائے ،تب ہی کُھل کر سامنے آتا ہے‘‘(جرمن مفکر‘گوئٹے) ٭٭ پچھلے دنوں امریکہ کے 70سالہ سابق وزیر دفاع،رابرٹ گیٹس کی آپ بیتی ’’ڈیوٹی:سیکرٹری دفاع کی یادداشتیں‘‘( Duty: Memoirs of a Secretary at War ) شائع ہوئی۔یہ کتاب ان ساڑھے چار برسوں( دسمبر 2006ء تا جولائی 2011ء)کی یادداشتوں پر مشتمل ہے جو انہوں نے بہ حیثیت وزیر دفاع گزارے۔ ڈاکٹر رابرٹ مائیکل گیٹس معمولی شخصیت نہیں،وہ دنیا کی سب سے بڑی فوج کے سربراہ رہے۔نیز ان کے دور میں اکیسویں صدی کی پہلی دو بڑی جنگیں لڑی گئیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔1974ء میں روسی تاریخ پر مقالہ لکھ کر جارج ٹائون یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری پائی۔اس سے قبل 1966ء میں سی آئی اے سے وابستہ ہوئے اور رفتہ رفتہ ترقی کرتے رہے۔1986ء میں امریکی خفیہ ایجنسی کے ڈپٹی ڈائریکٹر اور 1991ء میں ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔سیاسی طور پر قدامت پسند ریپبلکن پارٹی کے قریب ہیں۔ اسی لیے 2009ء میں سابق صدر،جارج بش نے آپ کو وزیر دفاع بنا دیا۔
دفاعی امور کا وسیع تجربہ رکھنے کے باعث نئے صدر،بارک اوباما نے بھی انہیں تین سال تک اپنے عہدے پر برقرار رکھا،حالانکہ گیٹس کا مخالف ریپبلکن پارٹی سے تعلق تھا۔ اوباما عہد حکومت کا اپنا دور رابرٹ گیٹس نے بظاہر خوشگوار انداز میں گزارا۔ وہ ہر ایک کے ساتھ تہذیب و خوش مزاجی سے پیش آتے۔مہذب انداز میں گفتگو کرتے اور کبھی آپے سے باہر نہ ہوتے۔چہرے پر عام طور پرسکون و اطمینان چھایا رہتا۔اسی لیے عام و خاص میں اعتدال پسند رہنما کی حیثیت سے مشہور ہوئے۔
مگر ان کی یادداشتوں نے یہ راز افشا کر ڈالا کہ گیٹس نے چہرے پر ماسک اوڑھ رکھا تھا۔ حقیقت میں وہ صدر اوباما اور ان کے وزراء و مشیروں سے لے کر ارکانِ کانگریس کی خامیوں و غلطیوں پر جلتے کڑھتے رہتے۔ہر لمحہ ان کا یہی جی چاہتا کہ وزارت دفاع چھوڑ کر گھر جا بیٹھیں۔وہ دل ہی دل میں ساتھیوں کی باتوں یا اقدامات پر ناراض ہوتے اور غصہ کرتے ۔لکھتے ہیں ’’ہر شام میرا جی چاہتا کہ دفتر کو خیر باد کہہ کر گھر چلا جائوں۔وہاں آرام سے چسکی لگائوں اور ڈنر کروں۔‘‘ سوال یہ ہے کہ جب رابرٹ گیٹس اوباما حکومت میں نا موزوں اور ساتھیوں سے انتہائی نالاں تھے، تو وہ تین سال اقتدار سے کیوں چپکے رہے؟اس کا جواب خود انہوں نے یوں دیا:’’میرے ہزاروں ہم وطن جوانوں نے بیرون ملک ملکی سلامتی کی خاطر اپنی زندگیاں دائو پر لگا دی تھیں۔سو میری یہ ذمے داری تھی کہ میں اپنا فرض ادا کروں۔‘‘سو وہ اپنے فرض کے بوجھ تلے دبے طوعاً کراہاً اوباما حکومت میں بھی ٹکے رہے۔اور اسی لیے انہوں نے یادداشتوں پر مبنی اپنی دوسری کتاب کا نام صرف ’’ڈیوٹی ‘‘ رکھا۔(موصوف کی پہلی آپ بیتی 1996ء میں بہ عنوان From the Shadows: The Ultimate Insider's Story of Five Presidents and How They Won the Cold War شائع ہوئی تھی۔ اس میں انھوں نے پانچ صدو ر کے ماتحت گذرا اپنا زمانہ بیان کیا۔) تاہم ان کی تشریح بہت سے امریکیوں کو مطمئن نہ کر سکی۔ان کا کہنا ہے کہ سابق وزیر دفاع اقتدار میں تھے ،تو اوباما حکومت کی کوتاہیوں اور غلطیوں پہ خاموش رہے۔ لیکن جب حکومتی ایوان سے باہر آ گئے ،تو اپنے ہی ساتھیوں پر الزامات اور تہمتیں لگانے لگے۔یہ سراسر بزدلی اور منافقت ہے۔
گو انھوں نے صدر اوباما اور دیگر ساتھیوں کے متعلق تعریفی جملے بھی لکھے، مگر قدرتاً لوگوں کی توجہ تنقید ہی پر مرکوز رہتی ہے۔ مزید برآں کئی امریکی دانشور واضح کرتے ہیں کہ پہلے کبھی کسی وزیر مشیر نے حاضر صدر پر تنقید نہیں کی کیونکہ یوں حکومت کو ضعف پہنچتا ہے۔لیکن سابق وزیر دفاع نے اس اہم امر کو مدنظر نہیں رکھا،صدر اوباما کے جانے کا انتظار نہ کیا اور اپنے تلخ انکشافات منظر عام پر لے آئے۔کیا اس بات کے پیچھے کوئی ایجنڈا پوشیدہ ہے؟ امریکی ماہرین سیاسیات کا کہنا ہے کہ امریکہ میں رابرٹ گیٹس محب وطن رہنما،ذہین لیڈر اور دل پسند شخصیت کے طور پر مشہورتھے۔ اسی لیے دوست و مخالفین ،سبھی ان کا احترام کرتے تھے۔لیکن اب ان کی کتاب پڑھ کر یہ سچائی سامنے آئی کہ وہ تو کئی لوگوں سے نفرت کرتے اور ان کا مذاق اڑاتے تھے۔یوں اپنا اصلی روپ سامنے لا کر انہوں نے اپنا اجلا دامن داغدار کر ڈالا۔
امریکہ کا مشہور صحافی،فلپ ایونگ لکھتا ہے: ’’رابرٹ گیٹس کی کتاب کا تعلق سیاست دانوں اور حکمرانوں کی ایسی آپ بیتیوں سے ہے جن میں مصنف خود کو بڑا پاک باز ،دیانت دار اور متقی دکھاتا ہے اور جو دغا بازوں ،لالچی لوگوں اور نا اہلوں میں گھرا ہوا ہے۔‘‘ رابرٹ گیٹس کا شمار ان گنے چنے امریکی رہنمائوں میں ہوتا تھا جو غیبت اور دوسروں کی چغلیاں کھانے سے پرہیز کرتے تھے۔مگر اپنی آپ بیتی لکھ کر یقیناً عوام کی نظروں میں انہوں نے اپنا قد کاٹھ پست کر دیا۔اس مثال سے دوسرے سیاست دانوں و حکمرانوں کو سبق حاصل کرنا چاہیے،جو اقتدار سے نکل کر خود کو ’’پوتّر‘‘ ثابت کرنے کی کوشش میں آپ بیتیاں لکھتے اور اپنی ساری غلطیوں کا ملبہ دوسروں پر ڈال دیتے ہیں۔
Robert Gates Book
↧
برطانوی شہزادی اور پاکستانی ڈاکٹر پر مبنی فلم
میں یہ کالم ’’وش لیڈر کانفرنس‘‘ میں شرکت کے بعد امریکہ سے وطن واپسی پر دوران پرواز تحریر کررہا ہوں۔ مجھے طویل فضائی سفر بالکل پسند نہیں کیونکہ میرے لئے سفر کا طویل دورانیہ گزارنا مشکل ہو جاتا ہے، اس لئے میں ہمیشہ طویل سفر پر جانے سے قبل کچھ کتابیں اور کرنٹ افیئر میگزین اپنے ساتھ رکھ لیتا ہوں تاکہ انہیں پڑھ کر وقت گزارا جاسکے اور جب پڑھنے سے بھی تھک جاتا ہوں تو کوئی فلم دیکھ لیتا ہوں۔ میں نے کچھ دیر قبل ہی شہزادی ڈیانا اور پاکستانی نژاد ہارٹ سرجن ڈاکٹر حسنات خان پر بننے والی فلم "Diana"دیکھی ہے جو میرے حالیہ کالم کا موضوع بنی۔ حال ہی میں ریلیز ہونے والی اس فلم کے بعد شہزادی ڈیانا اور پاکستانی ڈاکٹر ایک بار پھر دنیا بھر میں خبروں کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ اس فلم کو میرے بڑے بھائی اختیار بیگ اور ایک واقف کار ڈاکٹر ناجیہ اشرف نے بھی بہت پسند کیا تھا اور مجھ سے اس پر کالم لکھنے کی درخواست کی تھی۔ فلم دیکھ کر مجھے کچھ سال قبل شہزادی ڈیانا اور ڈاکٹر حسنات پر لکھا گیا اپنا کالم ’’برطانوی شہزادی اور پاکستانی ڈاکٹر‘‘ جسے ناظرین نے بے حد پسند کیا تھا، یاد آگیا جو فلم سے بہت مطابقت رکھتا ہے۔
فلم ’’ڈیانا‘‘ کی کہانی کیٹ اسنیل (Kate Snell) کی معروف بیسٹ سیلر کتاب ’’ڈیانا کی آخری محبت‘‘ (Diana Her Last Love) سے ماخوذ ہے جس میں شہزادی ڈیانا کا کردار ہالی ووڈ کی مشہور اداکارہ نوینی وارٹس اور پاکستانی ڈاکٹر حسنات خان کا کردار اداکار نوین اینڈریو نے بڑی خوبصورتی سے ادا کئے ہیں۔ فلم کی کہانی شہزادی ڈیانا کی زندگی کے آخری اُن 2 سالوں پر محیط ہے جب وہ شہزادہ چارلس سے علیحدگی کے بعد ڈاکٹر حسنات کی محبت میں گرفتار ہوئی تھیں اور اُن سے شادی کرنا چاہتی تھیں۔ فلم میں دکھایا گیا کہ شہزادی ڈیانا کی پاکستانی نژاد ہارٹ سرجن ڈاکٹر حسنات سے لندن کے ایک اسپتال میں کس طرح ملاقات ہوئی اور وہ اُن کی شخصیت سے متاثر ہوکر محبت میں گرفتار ہوئیں جس کے بعد دونوں کی خفیہ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب شہزادی ڈیانا نے ڈاکٹر حسنات سے شادی کا فیصلہ کیا اور اُن کی فیملی کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے لاہور تشریف لائیں اور شلوار قمیض میں ملبوس ہوکر اُن کے والدین سے ملاقات کی۔
فلم میں ڈاکٹر حسنات کی فیملی کو پرانے خیالات اور والدہ کو سخت مزاج طبیعت کا حامل دکھایا گیا ہے۔ فلم میں ڈاکٹر حسنات کی والدہ کا شہزادی ڈیانا کے ساتھ رویہ سرد دکھایا گیا جو ایک موقع پر شہزادی ڈیانا سے کہتی ہیں کہ ’’تمہارے سابقہ شوہر کے انکل لارڈ مائونٹ بیٹن کے تقسیم ہند کے فیصلے کے باعث تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کا واقعہ پیش آیا جس میں 60 لاکھ سے زائد مسلمانوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر پاکستان ہجرت کرنا پڑی اور 16 لاکھ سے زائد مسلمانوں کو شہید کیا گیا جس کا ذمہ دار وہ شاہی خاندان کو ٹھہراتی ہیں‘‘۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ شہزادی ڈیانا اپنے قیام کے دوران ڈاکٹر حسنات کی فیملی کا دل جیتنے کے لئے بچوں کے ساتھ کرکٹ کھیلتی ہیں اور ایک موقع پر حسنات کی دادی، شہزادی ڈیانا کو ’’شیرنی‘‘ کا خطاب دیتی ہیں جبکہ شہزادی ڈیانا، حسنات کی فیملی سے ملاقات کے بعد برطانیہ واپسی پر پاکستانی معاشرے کے جوائنٹ فیملی سسٹم کو سراہتی ہیں اور اسلام میں دلچسپی ظاہر کرتی ہیں۔ فلم کے ایک منظر میں ڈاکٹر حسنات، شہزادی ڈیانا سے کہتے ہیں کہ وہ قرآن پاک اور اسلامی تعلیمات کو اپنی زندگی میں انتہائی اہمیت دیتے ہیں جس پر شہزادی ڈیانا، ڈاکٹر حسنات سے کہتی ہیں کہ ’’وہ بھی قرآن پاک کی تعلیمات سے متاثر ہیں جس کا مطالعہ کرتی رہی ہوں اور مسلمانوں کے اس عقیدے پر یقین رکھتی ہوں کہ دنیا کی زندگی کے بعد ایک اور زندگی بھی ہے جہاں ہم ساتھ رہیں گے‘‘۔
فلم کے ایک منظر میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ شہزادی ڈیانا کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ڈاکٹر حسنات سے شادی کے بعد وہ اور حسنات برطانیہ چھوڑ کر کسی اور ملک رہائش اختیار کریں۔ اس سلسلے میں شہزادی ڈیانا، اٹلی کے دورے کے دوران دنیا کے معروف ہارٹ سرجن کرسچن برناٹ کو اپنا راز دان بناتے ہوئے یہ اعتراف کرتی ہیں کہ وہ ایک پاکستانی ہارٹ سرجن کی محبت میں گرفتار ہیں اور اُن سے شادی کرنا چاہتی ہیں۔ اس موقع پر شہزادی ڈیانا، کرسچن برناٹ سے ڈاکٹر حسنات کو کسی دوسرے ملک میں ملازمت کے لئے مدد کی درخواست بھی کرتی ہیں مگر ایک خود دار اور غیرت مند پٹھان ڈاکٹر حسنات اپنی ملازمت کے سلسلے میں کسی کی بھی مدد لینے سے انکار کردیتا ہے۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ شہزادی ڈیانا، ڈاکٹر حسنات کی فیملی کا دل جیتنے میں ناکام رہتی ہیں اور ڈاکٹر حسنات کے والدین اپنے بیٹے کے لئے ایک غیر مسلم مطلقہ عورت سے شادی کے لئے راضی نہیں ہوتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی معاشرے کی لڑکی ہی اُن کے بیٹے کے لئے موزوں رہے گی، اس طرح ڈاکٹر حسنات اور شہزادی ڈیانا ایک دوسرے سے قطع تعلق کرلیتے ہیں مگر دونوں کے درمیان جذباتی لگائو ختم نہیں ہوتا۔ فلم کے ایک منظر میں دکھایا گیا ہے کہ شہزادی ڈیانا دلبرداشتہ ہوکر ڈاکٹر حسنات کو جلانے کے لئے ایک اور مسلمان ڈوڈی الفائد سے دوستی کرتی ہیں اور خود اخبارات میں تصاویر شائع کراتی ہیں۔
اسی طرح پیرس میں حادثے کا شکار ہونے والی کار میں سوار ہونے سے کچھ دیر قبل تک وہ اس انتظار میں رہتی ہیں کہ شاید ڈاکٹر حسنات اُنہیں فون کریں اور دونوں کے تعلقات دوبارہ استوار ہوجائیں مگر ایسا نہیں ہوتا اور شہزادی ڈیانا کار حادثے میں موت کا شکارہوجاتی ہیں۔ فلم کے آخری منظر میں ڈاکٹر حسنات کو شہزادی ڈیانا کی موت کے بعد اُن کے محل کے باہر پھولوں کا گلدستہ رکھتے دکھایا گیا ہے جس پر ڈیانا کی تصویر کے ساتھ حسنات کے تحریر کردہ معروف شاعر مولانا رومی کے یہ الفاظ درج ہوتے ہیں۔ ’’دنیا کی زندگی کے بعد ہم دونوں جنت کے باغ میں ملیں گے‘‘۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر حسنات کا شمار دنیا کے بہترین کارڈیالوجسٹ سرجن میں ہوتا ہے۔ شہزادی ڈیانا کی موت کے بعد ڈاکٹر حسنات نے اُن کی آخری رسومات میں ایک اجنبی کی طرح شرکت کی جس کے بعد دلبرداشتہ ہوکر لندن کو ہمیشہ کے لئے خیرباد کہہ دیا۔
ڈاکٹر حسنات آج کل راولپنڈی کے آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیولوجی (AFIC) سے منسلک ہیں اور پرویز مشرف کے معالجین کی ٹیم کا حصہ ہیں۔ ڈاکٹر حسنات برطانیہ کے اسپتالوں سے اچھے تعلقات ہونے کے باعث ملالہ کو حملے کے بعد علاج کی غرض سے برطانیہ بھیجنے میں بھی اہم کردار ادا کرچکے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ فلم کے پروڈیوسر نے ڈاکٹر حسنات کی زندگی پر فلم بنانے سے قبل اُن سے کوئی اجازت نہیں لی جبکہ فلم کی ہیروئن نوینی وارٹس میں نہ تو شہزادی ڈیانا جیسی مشابہت نظر آئی اور نہ ہی فلم کا ہیرو نوین اینڈریو پاکستانی پٹھان ڈاکٹر حسنات جیسا لگا۔ فلم میں ڈاکٹر حسنات کو خود دار اور سخت مزاج طبیعت کا حامل شخص دکھایا گیا ہے جو کئی بار شہزادی ڈیانا پر غصے میں برس پڑتا ہے۔ فلم میں ڈاکٹر حسنات کے شراب نوشی اور ڈیانا کے ساتھ فحاشی کے مناظر کثرت سے موجود ہیں۔ اس کے علاوہ فلم میں شہزادی ڈیانا کی پاکستان آمد کو منفی انداز سے پیش کیا گیا ہے جس میں پاکستان میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا منظر بھی شامل ہے جبکہ فلم میں شہزادی ڈیانا کے پاکستان میں قیام کے دوران بادشاہی مسجد کے دورے اور امام مسجد کے قرآن پاک کے انگریزی ترجمہ دینے کا ذکر ہی نہیں کیا گیا اور نہ ہی شہزادی ڈیانا کے اسلام سے متاثر ہونے اور اسلام کی جانب رغبت کا اعتراف کیا گیا ہے۔
فلم ’’ڈیانا‘‘ نے شہرت کے نئے ریکارڈ قائم کئے ہیں مگر مغربی فلم بین آخر تک یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک تعلیم یافتہ شخص اپنے والدین کی خوشنودی کے لئے دنیا کی خوبصورت اور مقبول ترین عورت کو چھوڑدے اور اُس سے شادی نہ کرے۔ شاید انہیں اس بات کا علم نہیں کہ اسلام میں والدین کی اطاعت کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ شہزادی ڈیانا کی ڈاکٹر حسنات سے شادی کی خواہش یہ ظاہر کرتی ہے کہ شہزادی ڈیانا اسلام سے متاثر اور اس کی جانب راغب تھیں مگر شاید شاہی خاندان کے افراد کو شہزادی ڈیانا کے مسلمان ڈاکٹر کے ساتھ روابط پسند نہیں تھے۔ فلم دیکھنے کے بعد ایک انہونا سا خیال میرے ذہن میں آیا کہ اگر بالفرض برطانوی شہزادی کی پاکستانی ڈاکٹر حسنات سے شادی ہوجاتی تو یہ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری امت مسلمہ کے لئے فخر کا باعث ہوتا اور اس صورت میں برطانوی تخت کے وارث اور مستقبل کے بادشاہ کی ماں ایک پاکستانی مسلمان کی بیوی کہلاتی جس کی مسلمان اولاد اس بادشاہ کے سوتیلے بہن بھائی ہوتے اور اس طرح 100 سال تک ہم پر حکومت کرنے والے شاہی خاندان کا غرور خاک میں مل جاتا۔ کہیں یہی سوچ اور شہزادی ڈیانا کی مسلمانوں سے دوستی تو اُن کی موت کا سبب نہیں بنی؟
اشتیاق بیگ
بشکریہ روزنامہ 'جنگ '
↧
↧
G.M.F ...پاکستان کے لئے نیا سنگین خطرہ؟
ہر دور کی طاقتور قوتیں اپنی ٹیکنالوجی کی برتری کو دوسری اقوام پر اپنی حکمرانی قائم کرنے کے لئے استعمال کرتی رہی ہیں یہ الگ بات ہے کہ ہر دور کی ٹیکنالوجی اور طریقے آنے والے وقت کی ٹیکنالوجی اور انداز سے بالکل مختلف ہوں۔ کالے روٹری فون سے ٹیلی پرنٹر، فیکس، موبائل فون اور اسمارٹ فون، ای میل اور اسکائپ سے بھی کہیں آگے کی ٹیکنالوجی تو میری نسل کے لوگوں نے کسی حیرت کے بغیر اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اپنے ہاتھوں سے استعمال کرنا بھی سیکھ لیا ہے۔ فون کی طرح زندگی کے ہر شعبہ میں یہی صورتحال ہے کل تک جو کچھ محض خیالی اور جادوئی تصور تھا وہ آج کی سکڑی ہوئی دنیا میں عملی اور حقیقی ہے مگر انسانی فطرت اور دوسرے انسانوں پر کنٹرول کرنے کی خواہش کے اصول بدستور وہی ہیں۔
دنیا کے متعدد خطے آج بھی عصر حاضر کی سائنسی ترقی سے نابلد رہ کر روایتی زندگی گزار رہے ہیں مگر پاکستان کے 55 سالہ وزیر زراعت ایک پڑھے لکھے اور جدید دنیا سے آشنا وزیر ہیں جو امریکہ برطانیہ سمیت یورپی ممالک کے چکر بھی لگا چکے ہیں اور بظاہر ان کا ذریعہ آمدنی بھی زمینداری ہے۔ سکندر حیات بوسن کی بطور وزیر زراعت سب سے بڑی ذمہ داری پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی یعنی زراعت کو تحفظ اور ترقی دینا ہی نہیں بلکہ مستقبل پر نظر رکھنا بھی لازمی ہے مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ صرف فی ایکڑ پیداوار میں اضافے کو سب کچھ سمجھ کر صرف یہی اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ اسی لئے وہ (GENETICALLY MODIFIED) فوڈ کی پاکستان میں کاشت کے حق میں نظر آتے ہیں۔ بطور وزیر یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ بڑی بڑی غیر ملکی کمپنیوں سے مرعوب ہو کر پاکستانی عوام کی قسمت، صحت اور مستقبل کو رہن رکھنے کا فیصلہ کرنے سے قبل بھارت سمیت ان ممالک کی حالت اور مسائل پر نظرڈال لیں جنہوں نے زراعت کے میدان میں (G.M.O) کا استعمال کیا اور اس کے کیا نتائج بھگت رہے ہیں وہ امریکی ریاست ہوائی میں ایسی غذا کے اُگانے پر پابندی لگانے کی زور دار مہم پر نظر ڈال لیں۔امریکہ ک مختلف ریاستوں میں G.M.F یعنی ایسے بیج سے اُگائی ہوئی خوراک جس میں جنیاتی تبدیلی کرکے صرف ایک بار ہی اُگنے کی صلاحیت رکھی گئی ہو اس کے خلاف عوام، سائنسی ماہرین اور کاشتکار مزاحمت کررہے ہیں بلکہ اس پر پابندی کا مطالبہ بھی کررہے ہیں۔
دانشور اور ماہرین سماجیات تو اس طریقہ خوراک کو انسانوں پر کنٹرول کرنے کا طریقہ قرار دے رہے ہیں کیونکہ آنے والے دور میں نیا سامراجی نظام غذا کے ذریعے کسی بھی ملک یا خطے کے انسانوں کو کنٹرول کرنے کا سب سے مؤثر ذریعہ ہوگا۔ کسی بھی خطے یا علاقے کے انسانوں میں بیماری کنٹرول کرنے، پھیلانے، عادات تبدیل کرنے کے علاوہ گندم، چاول، مکئی، سبزیوں اور دیگر فصلوں کے بیچ صرف ایک فصل اُگا سکیں گے اگر کسان روایتی طور پر پہلی فصل سے بیج حاصل کرکے اگلی فصل اُگانے کے لئے استعمال کرنا چاہے تو یہ ممکن نہیں ہوگا کیونکہ ان بیجوں میں دوبارہ اُگنے کی صلاحیت ہی نہیں ہوگی۔ گویا پاکستان کے کاشتکار کی زمین ہوگی اور اسے ہر مرتبہ فصل کیلئے نیا بیج اسی طرح خریدنا ہوگا جس طرح ٹریکٹر کے لئے ڈیزل یا پٹرول خریدنا پڑتا ہے۔ اس کے لئے (G.M.O) یعنی ایسے بیج جن کی قدرتی جنیات میں تبدیلی لاکر ان کی ساخت، تاثیر اور اُگنے کی صلاحیت کو مصنوعی طریقے سے تبدیل کردیا گیا ہے امریکہ میں اربوں ڈالرز کے خرچ سے اپنے حق میں لابنگ کرنے والی مٹھی بھر بیج کمپنیوں کی زبردست مخالفت جاری ہے۔ مخالفت کرنے والے ایسی سائنسی، فنی اور نسل انسانی پر مضر اثرات والی وجوہات بیان کرتے ہیں جنہیں جان کر رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
امریکی ریاست ہوائی میں اس انجینئرڈ عمل والے بیجوں سے اُگائی جانے والی فصلوں پر مکمل پابندی کا قانون بنانے کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ایسی فصلوں کی خوراک سے چوہوں میں کینسر، شہد کی مکھیوں اور تتلیوں کا خاتمہ، بچوں میں مختلف قسم کی الرجی میں اضافہ، فصلوں میں گھاس اور ناکارہ پودوں میں بے تحاشا اضافہ، کیڑے مارنے والی زہریلی دوائوں کا زیادہ استعمال اور بیجوں کے D.N.A کو ہی تبدیل کر دینے کے دیگر مضر اثرات ایسی فصلوں میں پابندی کا جواز ہیں۔ ماضی میں سائنس دانوں نے انسانی نسل پر مہلک اثرات والی ادویات کو استعمال کے بعد نقصان دہ نتائج کے باعث ممنوع قرار دیا۔ ڈی ڈی ٹی کا کئی برس تک استعمال کے بعد اس کے انسانی زندگی پر مضر اثرات کے باعث ممنوع قرار دیا گیا۔
ریاست ہوائی میں ایسی فصلوں اور ڈی این اے تبدیل کردہ بیجوں پر پابندی لگانے کے مسودہ قانون کی محرک خاتون مارگریٹ ولی کا کہنا ہے کہ ’’اگر آپ کے کنٹرول میں بیج ہے تو آپ کو غذا پر کنٹرول حاصل ہے اور اگر غذا پر کنٹرول ہے تو پھر آپ انسانوں کو کنٹرول کرسکتے ہیں‘‘۔ دوسرے ہم ڈی این اے تبدیل شدہ فصلوں اور دوائوں سے زہر آلود ماحول پیدا کرکے اپنی ریاست کی سیاحت کو برباد نہیں ہونے دیں گے۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ مونسانٹو، سنگیتاڈائو، کارگل وغیرہ دنیا بھر پر قبضہ کرنے کی غرض سے اربوں ڈالرز خرچ کرکے خوراک کے ذریعے کنٹرول کرنے کی اسٹرٹیجی پر عمل پیرا ہیں۔
تبدیل شدہ ڈی این اے والے بیجوں سے اگائی جانے والی فصلوں کے ذریعے نہ صرف دنیا میں انسانوں کو کنٹرول کیا جاسکے گا بلکہ اپنے بیجوں کے ڈی این اے میں مزید تبدیلیوں سے انسانوں کی سوچ، عادت اور عمل کو بھی کنٹرول کیا جاسکے گا۔ دنیا کے پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک ان فصلوں اور خوراک کی تجربہ گاہ ہوں گے جس طرح تھرڈ ورلڈ کے ممالک ادویات بنانے والی کمپنیوں کی تجربہ گاہ ہیں۔ ’’موسمیاتی تبدیلی یا کلائی میٹ چینج‘‘ کے عنوان سے عالمی طاقتیں جو کچھ ریسرچ ، تجربات اور نتائج اخذ کرچکی ہیں وہ بھی نئی دنیا کے نئے ہتھیار ہوں گے۔ ہم تو ابھی تک ڈرون حملوں کی الجھنوں میں پھنسے ہوئے ہیں جبکہ دنیا بیجوں کے ڈی این اے تبدیل کرک اگائی جانے والی فصلیں اور خوراک کے ذریعے آپ کی سوچ اور زندگی کو کنٹرول کرنے، موسمیاتی تبدیلیوں کو انسانی قابو میں لاکر انہیں آنے والے وقتوں میں بطور ہتھیار استعمال کرنے کا پروگرام ہے۔
وفاقی وزیر زراعت سکندر حیات بوسن ایک تعلیم یافتہ ذمہ دار وفاقی وزیر کے طور پر اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ جینز کی تبدیلی سے کی جانے والی زراعت کو پاکستان میں فروغ دینے سے قبل اس بارے میں تمام تر معلومات اور مواد حاصل کریں اور کچھ نہیں تو صرف گوگل پر سے (G.M.F) کے بارے میں عام معلومات کو ہی پڑھ لیں تو انہیں اندازہ ہو جائے گا کہ زراعت کے یہ نئے طریقے پاکستان کے لئے کیا نتائج لئے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی نئی نسل اس سے کسی طرح اور کتنی متاثر ہوگی؟ جس طریقہ زراعت کے خلاف خود اس کے موجد ملک امریکہ میں شبہات اور احتجاج کی شدت اور جوابی سائنسی دلائل دیئے جارہے ہیں۔ جو طریقہ زراعت آپ کے کاشتکار اور زمیندار کو ہر فصل کے بعد نئی فصل کیلئے بیرونی دنیا کا محتاج بناکر رکھ دے گا۔ وہ طریقہ زراعت جس میں کاشتکار کی زمین صرف غیرملکیوں کے بیج اور نئی چھڑکنے والی ادویات کی محتاج ہوکر رہ جائے گی۔ گویا نئے نوآبادیاتی نظام میں بیج صرف ایک فصل اُگانے کے لئے غیرملکوں سے خریدنا ہوں گے اور کاشتکار کی زمین ایک طرح سے صرف کرایہ پر ہوگی اور غیرملکی زرمبادلہ خرچ کرکے فصل اُگانے کے ساتھ ساتھ اس فصل سے تیار کردہ غذا کے ذریعے آپ کی نئی نسلوں کی سوچ، عادات و خصائل، نفسیات، جذبات و خیالات کو بھی تبدیل کر ڈالنے کے تجربات کئے جاچکے ہیں۔
امریکہ کی صرف کچھ زراعتی کمپنیاں جینی ٹیکلی موڈی فائیڈ فوڈ کے ذریعے دنیا کی خوراک اور خوراک کے ذریعے انسانی عادات و خصائل اور انسانی جینز میں تبدیلی لانے اور کنٹرول کرنے کے منصوبے بنارہی ہیں۔ روایتی ہل کی زراعت سے ٹریکٹر اور مشینوں سے فصلوں کی کٹائی اور صفائی اور میکنائزڈ یعنی بیجوں کی جینز میں تبدیلی کے بغیر مشینی طریقوں سے پیداوار میں اضافہ کی ترقی تھی اب تو بیجوں کی فطری اصلیت، اس کی جینز اور اس میں دوبارہ اگنے کی صلاحیت کے ختم کرنے اور خوراک کے ذریعے انسانوں میں عادات اور سوچ کی تبدیلی، چھوٹے اور ترقی پذیر ممالک کی زرعی خود کفالت ختم کرکے ان کی زمینوں پر اپنا کنٹرول کرنے کی عالمی طاقتوں کی اسکیموں کو سوچے سمجھے بغیر لبیک کہنے والے وزیر زراعت ذرا بھارت اور دیگر ممالک میں اسی زراعتی طریقہ کے اثرات کو بھی اپنے سامنے رکھ کر فیصلہ کریں اس طریقہ زراعت کے بارے میں امریکی میڈیا کی کئی کئی ہزار الفاظ پر مشتمل حالیہ رپورٹوں کو ہی دیکھ کر اس کا اردو ترجمہ کرالیں اور عوام کی آگاہی کے لئے تقسیم کرکے رائے معلوم کرلیں۔ ورنہ اس حوالے سے پاکستان، پاکستان کی نسلوں اور مفادات کو پہنچنے والے نقصان کے ذمہ دار سکندر حیات بوسن اور ان کے معاونین ہوں گے۔
یہ مشرف کے مقدمہ سے بھی کہیں زیادہ مہلک، معاملہ ہے اور ملتان کی انتخابی شکست سے بھی زیادہ سنگین نوعیت کا حامل ہے۔ پاکستان کے مستقبل کے امانت داروں کو محض ملٹی نیشنل زرعی کارپوریشنوں کی کاسہ لیسی کے بجائے زرعی معیشت والے پاکستان کے 18کروڑ عوام کی فکر کرکے فیصلے کرنا چاہئیں ورنہ بیجوں کی جینز اور صلاحیت تبدیل کرنے والے پاکستان اور پاکستانی نسلوں کی صلاحیت کو بھی تبدیل کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا کو بھی تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
عظیم ایم میاں
بشکریہ روزنامہ 'جنگ '
↧
Saudi Crown Prince on Historic Visit to Pakistan by Ibtisam Elahi Zaheer
↧
شریعت کے تین درجے
شریعت کے تین اسٹیپس (درجے) ہیں۔
پہلا اسٹیپ اسلامی اخلاقیات ہے‘ وحی کا آغاز چالیس سال کی عمر میں ہوا‘ اللہ تعالیٰ نے چالیس سال کی عمر میں آخری نبی ہونے کا پیغام دیا لیکن آپؐ صادق اور امین برسوں پہلے اسٹیبلش ہو چکے تھے‘ مکہ کا ایک ایک شخص گواہی دیتا تھا‘ آپؐ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا‘ خیانت نہیں کی‘ بے انصافی نہیں کی‘ کسی کا حق نہیں مارا‘ گواہی نہیں چھپائی‘ وقت ضایع نہیں کیا‘ اونچی آواز میں تکلم نہیں کیا‘ کسی سے نفرت نہیں کی‘ غیر محرم کو نہیں دیکھا‘ غلط فہمی اور افواہ نہیں پھیلائی‘ دوسروں کے عقائد پر تنقید نہیں کی‘ معاشرے کی کوئی روایت‘ کوئی قانون نہیں توڑا‘ وعدہ خلافی نہیں کی‘ منافرت نہیں پھیلائی‘ کسی فساد کا حصہ نہیں بنے‘ کام چوری نہیں کی اور کسی پر ظلم نہیں کیا‘ ہمارے رسولؐ اعلان نبوت سے قبل اخلاقیات کے اس اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہو چکے تھے جس پر کفار بھی حجر اسود نصب کرنے کے لیے آپؐ کو ثالث مقرر کرنے پر مجبور ہو جاتے تھے
قریش کے بدترین دشمن بھی امانتیں رکھوانے کے لیے آپؐ کے گھر آتے تھے‘ تجارت کے قافلے روانہ ہوتے تھے تو لوگ اپنا سرمایہ آپؐ کے حوالے کرنا چاہتے تھے‘ آپؐ کی شرافت کا عالم یہ تھا ‘آپؐ مکہ کی متمول ترین خاتون حضرت خدیجہؓ کے لیے کام کرتے تھے‘ وہ آپؐ کی ایمانداری اور شرافت سے اتنا متاثر ہوئیں کہ انھوں نے خود نکاح کا پیغام بھجوا دیا‘ آپؐ کی شرافت کا یہ عالم تھا‘ آپؐ نے اس وقت تک دوسرا نکاح نہیں فرمایا‘ جب تک حضرت خدیجہؓ دنیا میں موجود رہیں‘ حضرت خدیجہ ؓ کا انتقال64 سال اور چھ ماہ کی عمر میں ہوا ‘ آپؓ اس وقت تک بہت ضعیف ہو چکی تھیں مگر نبی اکرمؐ نے دوسری شادی نہیں فرمائی اور یہ روایت اس معاشرے میں قائم کی جس میں کثرت ازدواج قانون بھی تھا اور رسم بھی۔ کنیزیں اور لونڈیاں بھی ہوتی تھیں اور آقاؤں کو ان پر پورا اختیار بھی ہوتا تھا‘ آپ ؐ کی اخلاقی برتری کی یہ حالت تھی مکہ اور اس کے قرب و جوار میں کوئی ایک ایسا شخص موجود نہیں تھا جو یہ کہہ سکتا‘ محمدؐ نے میرے ساتھ فلاں زیادتی کی‘ فلاں وعدہ توڑا یا فلاں وقت میرے ساتھ ترشی کے ساتھ پیش آئے‘ پورے مکہ میں کوئی شخص آپؐ پر جھوٹ بولنے تک کا الزام نہیں لگا سکا‘ رسول اللہ ﷺ نے اعلان نبوت فرمایا تو صحابہ کرام ؓ بھی اخلاقیات کے اعلیٰ معیارات پر متمکن ہو گئے‘ برداشت کیا تو زمین کو دہلا دیا‘ صبر کیا تو آسمان کی پلکیں گیلی ہو گئیں‘ وعدے نبھائے تو کفار کے دل نرم پڑ گئے اور سزائیں بھگتیں تو مشرکوں کو بھی پریشان کر دیا‘ یہ اخلاقیات شریعت کا پہلا اسٹیپ ہے‘ میرا ایمان ہے‘ ہم اس وقت تک سچے مسلمان نہیں ہو سکتے ہم جب تک شریعت کے اخلاقی درجے پر فائز نہیں ہو جاتے‘ ہمارے ہاتھ اور ہماری زبان سے جب تک دوسرے لوگ محفوظ نہیں ہوجاتے۔
شریعت کا دوسرا اسٹیپ (درجہ) عبادات ہیں‘ حضرت جبرائیل امین ؑ نے تیسری وحی کے دوران نبی اکرم ؐ کو وضو کا طریقہ سکھایا تھا‘ معراج کے دوران پانچ نمازیں فرض ہوئیں‘ تیس روزوں کا حکم‘ حج اور زکوٰۃ کا حکم بھی مختلف اوقات میں آیا‘ یہ تمام عبادات مسلمانوں پر فرض ہیں‘ ہم ان میں سے کسی عبادت کا انکار نہیں کر سکتے‘ یہ عبادات بندے اور خدا کے درمیان رابطہ ہیں‘ عبادات کے معاملے میں کوئی تیسرا شخص انسان اور خدا کے درمیان حائل نہیں ہو سکتا‘ میری نماز‘ میرا حج‘ میری زکوٰۃ اور میرا روزہ قبول ہوا یا نہیں ہوا؟ یہ فیصلہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ نے کرنا ہے‘ میں کتنا بڑا مسلمان ہوں‘ میرے درجات کیا ہیں اور عبادت اور ریاضت کے باوجود میرا ٹھکانہ دوزخ ہو گا یا پھر میں کلین شیو اور بھرپور دنیا داری کے باوجود جنت میں جاؤں گا؟ یہ فیصلہ بھی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کرے گا‘ میری عقیدت‘ میری نسبت اور رسول اللہ ﷺ کے اصحابؓ کے ساتھ میری محبت، ہو سکتا ہے میری بخشش میں کوئی حصہ ڈال دے لیکن اس کا فیصلہ بھی اللہ تعالیٰ ہی فرمائیں گے‘ دنیا کا کوئی شخص یہ ذمے داری نہیں اٹھا سکتا۔
انسان کی عبادت اس کا پرائیویٹ یا نجی معاملہ ہوتا ہے‘ یہ پوری پیشانی زمین پر ٹیکتا ہے‘ اس کے پنجے زمین کے ساتھ چپکتے یا پھر ہوا میں معلق رہتے ہیں‘ یہ تین سیکنڈ کا سجدہ کرتا ہے یا پھر ڈیڑھ منٹ کا‘ نماز میں اس کے دونوں پاؤں کے درمیان کتنا فاصلہ ہوتا ہے‘ یہ مسواک استعمال کرتا ہے یا منجن سے دانت صاف کرتا ہے‘ یہ پتلون پہن کر نماز پڑھتا ہے یا پھر شلوار یا تہبند باندھ کر‘ یہ نماز کے دوران کس سورت کی تلاوت کرتا ہے‘ یہ سحری اور افطار میں کیا کھاتا ہے‘ یہ زکوٰۃ کس کو دیتا ہے اور زندگی کے کس حصے میں حج کے لیے روانہ ہوتا ہے‘ یہ تمام معاملے اللہ اور اس کے بندے کے درمیان ہیں اور کوئی شخص اس معاملے میں مداخلت نہیں کر سکتا‘ دنیا کے کسی بھی خطے میں اور کسی بھی دور میں عبادت قانون نہیں رہی‘ یہ تعزیرات کی شکل اختیار نہیں کر سکی‘ ریاست یا حکومت کا کام شہری کو عبادت کی سہولت فراہم کرنا ہے‘ اسلامی ریاست کا کام مساجد بنانا‘ رمضان کا اعلان کرنا‘ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے سہولت فراہم کرنا اور حج کے سفر کو آسان بنانا ہے‘ لوگوں کو عبادت پر مجبور کرنا نہیں‘ یہ انسان کا اپنا فیصلہ‘اپنا اختیار ہے‘ ہاں البتہ جو شخص ان عبادات کا منکر ہو جائے یا جو انھیں اسلام سے خارج کرنے کی کوشش کرے اسلامی ریاست پر اس کا احتساب فرض ہو جاتا ہے مگر عبادت کرنا یا نہ کرنا یا کس طریقے سے کرنا یہ انفرادی فعل ہے اور حکومت اور ریاست کے پاس اس معاملے میں مداخلت کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔
عبادت فرض ہے‘ یہ اہلیت نہیں ہے‘ ہم کسی شخص کو صرف تقویٰ کی بنیاد پر نیو کلیئر سائنس دان نہیں مان سکتے‘ ہم کسی شخص کو صرف عبادات کی بنیاد پر وزیر خزانہ بھی نہیں بنا سکتے اور ہم صرف نوافل اور روزوں کی کثرت کی بنیاد پر کسی کو چیف جسٹس بھی قرار نہیں دے سکتے‘عہدوں کے لیے اہلیت درکار ہوتی ہے‘ عبادت اہلیت میں اضافے کا باعث تو بن سکتی ہے لیکن یہ اہلیت نہیں بن سکتی‘ عبادات شریعت کا دوسرا اسٹیپ ہے۔
شریعت کا تیسرا اسٹیپ اسلامی سزائیں ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے قاتل کی سزا موت‘ چور کی سزا ہاتھ کاٹنا اور زنا کی سزا سنگساری طے فرمائی‘ اسلام میں ان تینوں سزاؤں کی کنڈیشنز بھی موجود ہیں‘مثلاً اگر مقتول کے لواحقین اللہ کے نام پر یا خون بہا لے کر معافی پر تیار ہو جائیں تو قاتل کو قتل نہیں کیا جاتا‘ چوری کے پیچھے اگر انتہائی مجبوری ہو اور قاضی اس مجبوری کو مجبوری مان لے تو یہ سزا بھی معاف ہو سکتی ہے‘ معطل ہو سکتی ہے یا پھر تبدیل ہو سکتی ہے‘ آپ نے تاریخ میں پڑھا ہو گا‘ حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں حجاز اور شام میں قحط پڑا تو آپؓ نے چوری کی سزا معطل کر دی تھی‘کیوں؟ کیونکہ حضرت عمر فاروقؓ انسانی مجبوریوں سے آگاہ تھے‘ وہ جانتے تھے لوگ قحط میں رشتہ حیات قائم رکھنے کے لیے خوراک کی چوری پر مجبور ہوسکتے ہیں اور مجبوروں کے ہاتھ کاٹنا انصاف نہیں ہو گا‘ حضرت عمرؓ کا دور صحابہ کرامؓ کا زمانہ تھا‘ مستقبل کے دو خلیفہ راشد بھی اس وقت دنیا میں موجود تھے اور قرآن اور احادیث کے گواہ بھی لیکن وہ لوگ جو حضرت عمرؓ کی دوسری چادر کو معاف نہیں کرتے تھے‘ انھوں نے بھی سزا معطل کرنے کا یہ فیصلہ قبول کر لیا۔
یہ واقعہ ثابت کرتا ہے‘ بعض حالتوں میں چوری کی سزا بھی معطل ہو سکتی ہے اور رہ گئی زنا کی سزا تو اس میں بھی بے شمار کنڈیشنز ہیں اور یہ کنڈیشنز جب تک پوری نہیں ہوتیں‘ کسی ملزم‘ کسی مجرم کو سزا نہیں دی جا سکتی لیکن اس کے باوجود یہ سزائیں ہماری شریعت کا حصہ ہیں اور ہم اس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتے جب تک یہ سزائیں ہمارے ایمان کا حصہ نہ بن جائیں‘ یہ اللہ کے احکامات ہیں اور ہم ان سے سرتابی نہیں کر سکتے‘ یہ حقیقت ہے لیکن اس حقیقت سے قبل چند دوسری حقیقتیں بھی آتی ہیں‘ شریعت کا پہلا اسٹیپ اخلاقیات ہے‘ اسلام شروع ہی اخلاقیات سے ہوتا ہے‘ نبی اکرمؐ پر اترنے والی پہلی دونوں وحی اخلاقیات پر مبنی تھیں‘ علم حاصل کریں‘ اللہ کے کرم کو تسلیم کریں‘ اللہ کی بڑائی بیان کریں‘ صفائی اختیار کریں‘ احسان کریں اور صبر کریں‘ یہ اللہ کے ابتدائی پیغامات تھے‘ عبادات ان پیغامات کے بعد آئیں ‘ اللہ کے رسولؐ نے عبادت کی خطا پر کسی کو سزا نہیں دی تھی اور سزائیں تیسرے اسٹیپ میں اس وقت آئیں جب اسلامی ریاست قائم ہو چکی تھی اور مسلمان پہلے دو درجے طے کر چکے تھے اور اخلاقیات اور عبادات مسلمانوں کی زندگی کا حصہ بن چکی تھیں اورکسی مسلمان پر وعدہ خلافی‘ ناانصافی‘ جھوٹ‘ ظلم‘ زیادتی‘ ناشائستگی‘ اکھڑ پن‘ سستی‘ لاقانونیت اور حکم عدولی کا الزام نہیں لگ سکتا تھا اور مدینہ میں کوئی شخص بے نماز اور بے روزہ نہیں رہا تھا اور مدینہ میں کوئی ایسا شخص نہیں بچا تھا جو صاحب نصاب بھی ہو اور زکوٰۃ بھی نہ دے اور کوئی ایسا شخص بھی نہیں تھا جو حج کا فریضہ ادا نہ کرنا چاہتا ہو‘ شریعت کے تیسرے درجے سے قبل شریعت کے پہلے دونوں اسٹیپس پورے ہو چکے ہیں لیکن ہم لوگ اسلام کو تیسرے درجے سے شروع کرنا چاہتے ہیں‘ ہم اسلام کو سزاؤں سے اسٹارٹ کرنا چاہتے ہیں۔
آپ اس کا عملی مظاہرہ لورا لائی میں دیکھ لیجیے‘لورا لائی کے علاقے کلی منزکئی میں چند مقامی علماء کے حکم پرشک کی بنیاد پر لوگوں نے ایک خاتون اور ایک مرد دراز خان کو پتھر مار کر ہلاک کر دیا‘ ہم اس سزا کے خلاف نہیں ہیں‘ یہ قرآن کی سزا ہے لیکن ہم طریقہ کار پر اختلاف کر سکتے ہیں‘ لورا لائی کے جن لوگوں نے یہ سزا سنائی‘ کیا وہ ایمان کے اس اسٹینڈرڈ پر پورے اترتے ہیں جس کی بنیاد اسلام نے رکھی تھی‘ اگر ہاں تو بھی سوال پیدا ہوتا ہے‘ کیا ہم نے شریعت کے پہلے دو درجے طے کر لیے ہیں‘ کیا دنیا ہماری صداقت اور امانت کی قسم کھا سکتی ہے‘ کیا ہمارے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہو چکے ہیں اور کیا ہم نے عبادت کے اس معیار کو چھو لیا ہے جس میں خدا بندے سے خود پوچھتا ہے بتا تیری رضا کیا ہے؟ اگر نہیں توہمیں کس نے دوسرے شخص کو گنہگار ڈکلیئر کرنے اور اسے پتھروں کے ذریعے ہلاک کرنے کا اختیار دیا؟ اسلام صداقت اور امانت سے شروع ہوا تھا‘ خدا کے لیے اسے صداقت اور امانت سے شروع کریں‘ اس کا آغاز پتھروں سے نہ کریں‘ ایمان چاہتے ہو تو پہلے ایماندار بنو‘ اسلام چاہتے ہو تو پہلے سلامتی کے راستے پر چلو‘ تمہیں اسلام بھی ملے گا‘ ایمان بھی اور اللہ بھی۔
↧
سوشل میڈیا پاکستانی معاشرے کا آئینہ بن گیا

پاکستانی معاشر ے میں سوشل میڈیا کی جڑیں بہت تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ اس کے استعمال کرنے والوں میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں سر فہرست ہیں۔ یہ نوجوان کیسے نظر آنا چاہتے ہیں، ان کے شب و روز کا معمول کیا ہے، وہ کب اٹھتے اور کب سوتے ہیں۔ یہ سب کچھ سوشل میڈیا کے آئینے میں صاف نظر آتا ہے۔
پاکستان ایڈورٹائزرز سوسائٹی نے ’زی سوشل پرائیوٹ لمیٹڈ‘ کی مرتب کردہ ایک تحقیقی رپورٹ جاری کی ہے جس میں تسلیم کیا گیا ہے کہ سوشل میڈیا نے دنیا بھر کے لوگوں کے درمیان آپسی رابطوں میں ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔ اب سوشل میڈیا کی بدولت لوگ ہر وقت ایک دوسرے سے جڑے رہتے ہیں۔
انتہائی پاور فل سوشل میڈیا نے پرنٹ، آن لائن اوریہاں تک کہ الیکٹرونک میڈیا کو بھی بعض حوالوں سے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ متذکرہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سماجی رابطے کی ویب سائٹس ’فیس بک‘، ’ٹوئیٹر‘ اور ’لنکڈ ان‘ سے بچہ بچہ واقف ہے۔ ان سائٹس پر آکر پاکستانی عوام کیا کچھ تلاش کرتی ہے اور اس کا رجحان کس طرف ہے اسے نہایت دلچسپ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق پچھلے مہینے یعنی جنوری 2014ء میں 10لاکھ لوگوں نے فیس بک جوائن کی۔ مجموعی جائزہ لیں تو پاکستان میں ہر مہینے ایک کروڑ چھبیس لاکھ افراد فیس بک پر کوئی نہ کوئی سرگرمی ضرور دکھاتے ہیں۔ ان میں پچاس 50فیصد سے زائد افراد کی عمریں 18سے 34سال کے درمیان ہیں جبکہ باقی افراد میں اکثریت 18 سال سے کم عمر نوجوانوں کی ہے۔
سب سے مقبول کون ؟
اگر یہ معلوم کیا جائے کہ ’ٹوئیٹر‘ فینز کے درمیان پاکستان میں فی الوقت سب سے زیادہ مقبول شخصیت کون سی ہے تو بلاشبہ جواب ملے گا ’عمران خان‘۔ ان کے بعد بالترتیب جیو ٹی وی کے میزبان حامد میر پھر کرکٹر وسیم اکرم، سنگر اور ایکٹر علی ظفر اور آخر میں ایک اور ٹی وی اینکر مبشر لقمان کا نمبر آتا ہے۔
اسی ویب سائٹ پر پانچ سب سے زیادہ پسند کئے جانے والے برانڈز میں موبائل فون کمپنی ’موبی لنک‘ اور بعد ازاں ’وارد‘ کا نمبر آتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برانڈ کی تشہیر کے لئے فیس بک ایک ایسا طاقتور میڈیم بن گیا ہے جو فینز کو ’کنزیومرز‘ میں تبدیل کردیتا ہے۔ جیسے ’ایف ایم سی جی‘ کے پاکستان میں سب سے زیادہ تقریباً 1 کروڑ 70 لاکھ فینز ہیں۔
سوشل میڈیا کے جائزے سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ پاکستانی فیشن کے دلدادہ ہیں اور ہر گھڑی فیشن سے متعلق اپ ڈیٹ رہنا پسند کرتے ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ فیشن پیجز پسند کرنے والوں میں پاکستان کا نمبر دوسرا ہے جہاں 1کروڑ 40لاکھ پاکستانی فیشن پیجز لوگوں کی خاص توجہ کاباعث ہیں۔
فیشن کے بعد ٹیلی کام کو لائیک کرنے والوں کی تعداد 1 کروڑ ہے۔ پاکستانیوں کی پسند کے لحاظ سے پانچواں نمبر بیوٹی پیجز کا ہے۔ ایڈوانس ٹیلی کام کے فینز کی تعداد 97,000 تک پہنچ گئی ہے ۔ ’تھریڈز اینڈ موٹفس‘ فیشن کا دوسرا اور ’جابز ان دبئی‘ یعنی ’دبئی میں آسامیوں‘ کا نمبر تیسرا ہے۔
سوشل میڈیا کی تجزیاتی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی نوجوانوں کی نظر میں دبئی دنیا کے باقی ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ ’گلیمرس اور مالدار لائف اسٹائل‘ رکھتا ہے ۔ اکثریت کسی بھی یورپی ملک کے مقابلے میں دبئی میں سب سے آسان رسائی کا خیال رکھتی ہے۔
وسیم صدیقی
Social Media in Pakistan
↧
↧
فیس بک وہاٹس اپ 19 ارب ڈالرز میں خرید رہی ہے
سوشل میڈیا ویب سائٹ فیس بک نے اعلان کیا ہے کہ وہ موبائل فون کی میسیجنگ سروس ’’وہاٹس اپ‘‘ 19 ارب ڈالرز نقد اور اسٹاک میں خرید رہی ہے، اس طرح اب تک اس کمپنی کی یہ سب سے بڑی تحصیل ہے اور گوگل، مائیکروسوفٹ یا ایپل نے بھی کبھی اتنی بڑی خریداری نہیں کی۔
اس رقم میں سے تین ارب ڈالرز وہاٹس اپ کے بانیوں اور ملازمین کو دیئے جائیں گے۔
یاد رہے کہ وہاٹس اپ کو ہر ماہ 45 کروڑ سے زیادہ افراد استعمال کر رہے ہیں۔ یہ سروس ان لوگوں میں بہت پسند کی جاتی ہے جو ایس ایم ایس پر اپنی رقم خرچ کرنا پسند نہیں کرتے ہیں۔
ایک بیان میں فیس بک کے بانی مارک زكربرگ نے وہاٹس اپ کی سروس کو نہایت بیش قیمت کہا ہے۔
وہاٹس اپ کا دعویٰ ہے کہ اس کی سروس استعمال کرنے والوں میں روزانہ دس لاکھ افراد کا اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
اس سودے پر بات چیت کے دوران وہاٹس اپ کے بانی جین كويوم نے کہا کہ وہ اس کمپنی کو آزاد اور خود مختار طریقے سے چلانا چاہتے ہیں۔ وہ اب فیس بک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے رکن ہوں گے۔
انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ’’مارک زکربرگ اور فیس بک کے ساتھ وابستہ ہو کر ہم خوش ہیں ۔ اب ہم اپنی خدمات دنیا بھر میں مزید لوگوں تک پہنچاسکیں گے۔‘‘
فیس بک کے بانی مارک زكربرگ کا کہنا ہے کہ اس سودے کا خیال محض گیارہ دن پہلے آیا تھا۔
واضح رہے کہ فیس بک کے شیئرز کے ابتدائی کاروبار میں پانچ فیصد کمی آئی ہے۔
وہاٹس اپ کی خریداری سے پہلے فیس بک نے 2012ء میں ایک ارب ڈالرز کی لاگت سے اسٹاگرام کو خریدا تھا۔
یہ اطلاعات بھی ہیں کہ فیس بک نے فوٹو میسیجنگ سروس سنیپ چیٹ کو خریدنے کے لیے تین ارب ڈالرز کی پیشکش کی تھی۔
فیس بک کے چیف ایگزیکٹیو مارک زکربرگ کا کہنا ہے کہ وہاٹس اپ ایک ارب صارفین کے ہدف کے حصول کے راستے پر ہے۔انہوں نے کہا ’’یہ سروس جب اس سنگِ میل کو عبور کرلے گی تو یہ سب کے لیے ناقابلِ یقین حد تک قابلِ قدر ہوگی۔‘‘
↧
اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے
بھارتی گلوکار ہنس راج ہنس دائرہ اسلام میں داخل تو کب کا ہو چکا مگرقبول اسلام کا اعتراف اس نے قائداعظم کے الفاظ میں ’’اسلام کی تجربہ گاہ‘‘ پاکستان میں کیا۔ وہ محمد یوسف کے طور پر مدینہ منورہ میں حاضری کا خواہش مند ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی آرزو پوری کرے کہ حاضری فقط آرزو کی بات نہیں اس کے لیے بلاوا ہے جس نے اس پر اسلام کا دروازہ کھولا وہ اس صوفی گلوکار پر مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کا باب وا ضرور کریگا۔ ان شاء اللہ۔ ہنس راج ہنس سے پہلے ایک بھارتی اداکارہ ممتا کلکرنی اسلام قبول کر چکی ہے اور مصنوعی روشنیوں کی دنیا سے دور کینیا میں مقیم ہے۔
نائن الیون کا واقعہ مسلمانوں کے لیے ابتلا، اذیت، پریشانی اور گوناگوں مشکلات کا باعث بنا۔ انتہا پسند اور بنیاد پرست کا نام انہیں کمیونزم کی شکست فاش کے بعد دیا جا چکا تھا، دہشت گرد وہ 9/11 کے بعد قرار پائے۔ ٹوئن ٹاورز کے ملبے سے اٹھنے والے سیاہ دھوئیں کی کالک سے اسلام اور مسلمانوں کے چہرے کو داغدار کرنے کی کوششیں عروج پر پہنچ گئیں مگر تدبیر کندہ بندہ تقدیر زند خندہ ۔
امریکہ نے نیٹو کے ساتھ مل کر افغانستان اور عراق میں مسلمانوں پر ڈیزی کٹر بم اور کروز میزائل برسانے شروع کیے تو صلیبی جنگ شروع کرنے والے بش اور اس کے پوڈل ٹونی بلیئر کا خیال تھا کہ دو چار ماہ میں ’’بنیاد پرستوں‘‘ ’’انتہا پسندوں‘‘ ’’دہشت گردوں‘‘ اور ’’غلبہ اسلام‘‘ کی مالا جپنے والوں کا مکمل خاتمہ کر کے ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ نافذ ہو گا اور پوری دنیا مذہب دشمن سیکولر ازم، عریاں و فحش تہذیب اور سودی نظام معیشت کا کلمہ پڑھے گی مگر
؎ خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا۔
افغانستان پر وحشیانہ فوجی حملے کے بعد اسلام، قرآن مجید اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے تحقیق و مطالعہ کا شوق عام ہوا، غیر مسلموں میں اسلام کو جاننے کی لگن پیدا ہوئی اور مسلمانوں میں اپنی شناخت کا جذبہ پوری طاقت سے ابھرا۔ آج امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، ہالینڈ اور ڈنمارک میں اسلام تیزی سے پھیلنے ، بڑھنے والا مذہب ہے اور بہت سے مغربی محققین یہ خدشہ ظاہر کر رہے کہ بعض یورپی ممالک میں قبول اسلام کی موجودہ رفتار ڈیما گرافی تبدیل کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔
بش کے پوڈل ٹونی بلیئر کی سالی لورین بوتھ 2010ء میں اسلام قبول کر کے نئی زندگی کا آغاز کرچکی ہے۔ صحافی اور براڈ کاسٹر لورین بوتھ حجاب اوڑھتی اور نماز ِ پنجگانہ ادا کرتی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دلآزار فلم بنانے والا آرناڈو وین ڈرو پچھلے سال مسلمان ہو چکا۔ عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے بعد ڈچ فلمساز وین ڈرو نے انٹرویو میں بتایا کہ ’’اسلام کے بارے میں پڑھ کر اس امن پسند مذہب کے بارے میں میرے متعصبانہ خیالات تبدیل ہوئے اور اب میں اپنے گناہوں کی معافی مانگنےاور نبی ٔ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن میں پناہ لینے کے لئے مقدس سر زمین پر آیا ہوں۔‘‘
ڈنمارک میں دلآزار خاکوں کی نمائش کے بعد اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد غیر معمولی طور پر بڑھی۔ ایک نو مسلم عبدالوحید ایڈیسن کے مطابق کم و بیش چار ہزار لوگوں نے اسلام قبول کیا اور قرآن مجید کی اشاعت و تقسیم کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ برطانیہ میں مجموعی طو پر پچیس ہزار افراد نے کلمہ پڑھا۔ یہی حال ناروے، سویڈن کا ہے۔ یہ مسلمانوں کو اجڈ، گنوار، وحشی، غیر مہذب ثابت کرنے کی نفرت انگیز مہم کا ردعمل ہے یا اللہ کے دین اسلام اورمحبوب ﷺ کے خلا ف دلآزار کارروائیوں کا قدرت کی طرف سے جواب، خدا ہی بہتر جانتا ہے مگر جن معاشروں میں اسلام کو دبانے اور مسلمانوں کو جھکانے کی مہم زوروں پر ہے وہاں سلیم الفطرت انسانوں کے دل اسلام کے نور سے منور ہو رہے ہیں۔ ؎
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ ابھرے گاجتنا کہ دبا دیں گے
ہنس راج ہنس تازہ اضافہ ہے۔
وطن واپسی پر سیکولر بھارت میں ہنس راج کے ساتھ اس کے دوست، پاکستان و اسلام دشمن میڈیا اور فلم انڈسٹری کے کار پردازان کیا سلوک روا رکھتے ہیں فی الحال وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے مگر حال ہی میں اسلام قبول کرنے والے ایک امریکی سفارتکار جوزف سٹافورڈ کو وائٹ ہائوس نے استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا ہے۔ سوڈان میں امریکہ کے قائم مقام سفیر Joseph D. Stafford نے انصار السنہ کے مرکز میں پہنچ کر اسلام قبول کیا اور فوری بعد ذاتی وجوہات کی بنا پر استعفیٰ دے دیا۔ سوڈان ٹربیون کے مطابق انہیں منصب سے علیحدگی پر مجبور کیا گیا اور انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔ روشن خیال، روادار اور سیکولر ازم کے علمبردار امریکہ و یورپ میں اسلام قبول کرنے والوں سے بد سلوکی کوئی نئی بات نہیں۔
ایم ٹی وی کی مقبول اینکر کرسٹائن بیکر نے اسلام قبول کیا تو اسے ملازمت سے برخاست ہونا پڑا اور یورپ کے کسی ملک کا کوئی چینل اس خوبرو، تیزطرار، حاضر جواب اور اعلیٰ تعلیم یافتہ مقبول اینکر کو ملازمت دینے کا روادار نہ تھا حتیٰ کہ اس کی کتاب MTV to MAKKA کی اشاعت پر کوئی پبلشر تیار نہ ہوا۔ یونے ریڈلی (حال مریم) طالبان کی قید سے رہا ہو کر برطانیہ پہنچی تو افغان طالبان کی خوش اخلاقی اور حسن سلوک کا ذکر کرنے پر اسے اپنے ساتھی اخبار نویسوں، معاشرے اور عزیز و اقارب کی طرف سے طنز و تضحیک، دلآزار سلوک اور توہین کا سامنا کرنا پڑا۔ In the hands of the Taliban میں تفصیل موجود ہے۔
ایک عربی مجلے کو انٹرویو دیتے ہوئے Yvonne Ridle نے بتایا ’’بظاہر میں جاسوس تھی۔ پھر میں نے انہیں (طالبان تفتیش کاروں کو) اشتعال دلانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ میں نے تفتیش کاروں کے منہ پر تھوکا، انہیں گالیاں دیتی رہی، بری طرح دھتکارتی رہی، اس کے جواب میں وہ مجھے اپنی بہن اور معزز مہمان کہتے رہے۔ رہنے کے لئے ایئرکنڈیشنڈ صاف ستھرا کمرہ دیا۔ اس کا موزانہ ابو غریب جیل اور گوانتانامو بے رکھے گئے بیگناہ افغان اور عراقی قیدیوں سے کیجئے امریکی ان سے غیر انسانی سلوک کر رہے ہیں۔ بتایئے ان میں سے مہذب اور شائستہ کو ن ہے؟ گنوار اور اجڈ کون؟'
ریڈلے نے اپنے قارئین بالخصوص مسلم نوجوانوں کو نصیحت بھی کی ’’میں نے مغربی معاشرے کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ نام نہاد تہذیب اور اس کے معاشرے کو باریک بینی سے دیکھنے کی وجہ سے میں جانتی ہوں کہ یہ کتنا خطرناک معاشرہ ہے۔ دور سے بہت خوبصورت اور چمکدار مگر قریب جا کر دیکھو تو بھیانک۔ یہ صرف تن و جاں اور مادیت سے تعلق رکھتا ہے اور روحانی اقدار کے لئے تباہ کن۔
اس میں شک نہیں کہ مسلمان اس وقت خوار و زبوں ہیں، دل گرفتہ و دل شکستہ، ذلت و رسوائی کا شکار مگر یہ اسلام سے وابستگی کے سبب نہیں قرآن مجید سے دوری اور اسوہ ٔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عدم پیروی کا نتیجہ ہے ورنہ اسلام آج بھی سلیم الفطرت انسانوں کے لئے پرکشش ہے۔ دل مسخر، دماغ فتح اورآنکھیں خیرہ کرنے کی صلاحیت سے مالا مال۔ ہنس راج، ممتا کلکرنی، جوزف سٹافورڈ، یونے ریڈلے، لورین بوتھ، کرسٹائن بیکر اور ہالینڈ میں امریکہ کی سابقہ سفیر یاسمین علی کے قبول اسلام ، ہالی وڈ، بالی وڈ اور دانش افرنگ سے مرعوب دانشوروں اورامریکہ و یورپ کی پروپیگنڈا تکنیک سے مہذب حکمرانوں کے منہ پر طمانچہ ہے جو ڈھٹائی سے یہ کہتے ہیں کہ چودہ سو سال پہلے کا اسلام چھوڑو مذہب عصر کی بات کرو یعنی مشینوں کی حکومت اور قلب و روح کی موت کا سودا۔
ارشاد احمد عارف
بشکریہ روزنامہ 'جنگ'
↧
Why did Facebook buy WhatsApp?
↧
پاکستان انڈر 19 ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں اور آئی سی سی کا چوہدری بھارت ایونٹ سے باہر
آئی سی سی انڈر 19 ورلڈ کپ کے کوارٹر فائنل میں پاکستان نے سری لنکا کو 121 رنز سے شکست دے کر سیمی فائنل میں جگہ بنا لی جہاں اس کا مقابلہ انگلینڈ سے ہوگا جبکہ آئی سی سی کا چوہدری بھارت ایونٹ سے باہر ہوگیا۔
شارجہ کرکٹ اسٹیڈیم میں کھیلے گئے میچ میں پاکستان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹگ کا فیصلہ کیا اور مقررہ 50 اوورز میں 9 وکٹوں کے نقصان پر 279 رنز بنائے۔ پاکستان کی جانب سے کپتان سمیع اسلم اور امام الحق کے درمیان پہلی وکٹ کی شراکت میں 177 رنز بنے، سمیع اسلم 95، امام الحق 82 اور کامران غلام 52 رنز کے ساتھ نمایاں رہے۔ سری لنکا کی جانب سے بنورا فرنینڈو نے 4، انوک فرنینڈو نے 2 جب کہ اے کے ٹیرونی نے ایک وکٹ حاصل کی۔
280 رنز کے تعاقب میں سری لنکا کی جانب سے مایوس کن آغاز کیا گیا اور پہلے اوور کی پہلی گیند پر ضیا الحق نے ہشان ڈومنڈو کو بولڈ کیا اور 10 کے مجموعی اسکور پر کپتان کشال مینڈس بھی ایک رنز بنا کر پویلین لوٹ گئے، سری لنکا کی جانب سے پریامل پریرا 68 اور سمارا وچکمارا 51 رنز کے ساتھ نمایاں بیٹسمین رہے اور پوری ٹیم 158 رنز پر ڈھیر ہوگئی، پاکستان کی جانب سے ضیا الحق، کامران علی، ظفر گوہر اور کامران غلام نے 2،2 وکٹیں حاصل کیں۔
ایک دوسرے میچ میں انگلینڈ نے کوارٹر فائنل میں بھارت کو شکست دے کر ورلڈ کپ کی دوڑ سے باہر کر دیا جبکہ سیمی فائنل میں اس کا مقابلہ پاکستان سے ہوگا۔
↧
↧
Muhammad Yousaf Pakistan's Snooker Hero
↧
یہ استنبول ہے......Istanbul Turkey
استنبول روانگی سے پہلے دوستوں نے مشورہ دیا کہ ماہ فروری میں لاہور کے مقابلے میں وہاں بہت ٹھنڈ ہو گی اس لیے اوور کوٹ ساتھ لے جانا نہ بھولنا اس کے علاوہ پیٹ اور گلے کی خرابی کی ادویات ضرور بیگ میں رکھ لینا کیونکہ سردی لگنے یا بد پرہیزی کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔ مشورہ مخلصانہ تھا لہٰذا اس پر عمل کیا۔ اوورکوٹ لیا، فل سلیوز سویٹر لیے، تھرمل خریدے اور گرم جرابوں کے علاوہ اون سے بنی ٹوپی سے بکس بھر کر اتاترک ایئرپورٹ پر اترے۔ فوری ردعمل تو ایئرپورٹ کی کشادگی، اس کا شاندار انٹریئر، اس کی صفائی، مسافروں کا ہجوم، اس کا شاپنگ ایریا، اس کے جہازوں کی آمد و رفت بتانے کے کمپیوٹرائزڈ بورڈ، اس کے WC ایریاز کی ڈائریکشن بتانے والے ایروز، اس کے ایکسلریٹر اور مسافروں کی رہنمائی والے بوتھ دیکھ کر یہ احساس ہوا کہ ہاں یہ واقعی اتاترک ایئرپورٹ ہے۔ مصطفے کمال پاشا کے نام پر رکھا گیا اتا ترک ایئرپورٹ بلا شبہ اس شخص کی عظمت کی دلیل تھا اور اس کے نام اور مقام کے شایان شان تھا۔ اپنے یہاں تو سنا ہے ایک گلی کی نالی کے منہ پر ایک زندہ ممبر پارلیمنٹ کا نام لکھا پڑھ کر یہ ان کی عظیم کاوش سے معرض وجود میں آئی ہے، ہمارے ایک دوست کو ابکائی آ گئی تھی اور اس جیسے اکثر منصوبوں کے یادگاری پتھروں پر بہت سے نام لکھے ملتے ہیں جنھیں پڑھنے والے شرمندہ ہو ہو جاتے ہیں۔
دس روز تک استنبول میں گھومنے کے دوران موٹر سائیکل یا اسکوٹر کی کسی بھی جگہ زیارت نہ ہوئی تو حیرت ہوئی لیکن اس پُھرتیلی سواری پر پابندی کا علم ہوا تو غور کرنے پر جواز کی سمجھ بھی آ گئی کہ اگر پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم تیز رفتار، محفوظ، ہر جگہ موجود، ارزں اور پابند وقت ہو اور پھر اس سسٹم میں منی بس، بڑی بس، میٹرو، ٹرام کے علاوہ مخصوص علاقوں میں چھوٹے بحری جہاز بھی ہوں تو موٹر بائیک کی پاکستان جیسے ترقی پذیر غربت و جہالت زدہ ملک میں تو ضرورت ہو لیکن ترکی جیسے خوشحال اور ترقی یافتہ ڈسپلن اور اصولوں کے پابند ملک کے لیے غیر ضروری اور خطرناک سواری ہو گی اسی لیے میری نظریں چھ سواریاں بٹھائے ہیوی ٹریفک کے بیچ میں سے ڈھائی فٹ رستہ نکال کر موٹروں کے بیک ویو شیشے توڑ کر گزرنے والی موٹر سائیکلوں کو دیکھنے کے لیے ترس گئیں۔
دس روز کی صبح سے شام تک کی سیاحت میں ہمیں دو جگہ نیم گداگر نظر آئے لیکن ایسا کہنا بھی شاید پیشۂ گداگری کی توہین ہو ہمارے ہاں تو ہٹے کٹے لوگ کندھوں پر کرائے کے اپاہج اٹھائے اور نوجوان صحت مند عورتیں چھ ماہ کا بچہ گود میں لیے اور دودھ کی خالی بوتل پکڑے آپ کی کار کے شیشے کو انگوٹھی سے ٹھونک کر پیسے کا تقاضا کرتے اور بھیک نہ ملنے پر بڑبڑاتے ہوئے شاید بددعا بھی دیتے ہیں لیکن استنبول میں ایک جگہ ایک نابینا شخص اپنے سامنے ترک زبان میں لکھا ہوا بورڈ رکھے فٹ پاتھ پر خاموش بیٹھا دیکھا اور دوسری جگہ سمندر کے کنارے جہاں لوگ جہاز سے اتر کر اپنی اپنی اگلی منزل کی طرف جا رہے تھے رستے میں دو بچوں کو زمین پر ساتھ ساتھ بیٹھے دو وائلن نما آلات سے موسیقی کی دھن بجاتے دیکھا۔ ان کے آگے رومال پڑا تھا ہم نے بھی ترک کرنسی کے دو چھوٹے سکے وہاں رکھ دیے تا کہ اتنا تو ثابت کر دیں کہ ہم عالمی گداگر ہی نہیں بھیک دیتے بھی ہیں۔
استنبول میں ہمیں ہر سڑک گلی اور عمارت کے پاس اشیائے ضروری کے بے تحاشہ بارونق اسٹور دیکھنے کو ملے جن میں خریداروں کی بھی کمی نہ تھی لیکن بیازت مسجد کے قرب میں گرینڈ بازار تو دیکھنے کی جگہ تھی جس میں قالین، پیتل، سلک اور لیدر کی حکومت تھی۔ گرینڈ بازار مکمل کورّڈ تھا۔ اس میں 22 اطراف سے داخلہ ہو سکتا تھا سج میں 64 گلیاں اور تین ہزار سے زیادہ دو کانیں تھیں۔ ادھر کوئی ساتھی بھیڑ کی وجہ سے نظروں سے اوجھل ہوا تو سمجھئے گم ہو گیا۔ اس لیے دکانداروں کی اردو یا انگریزی سے قعطی لاعلمی کی وجہ سے موبائل فون ہی ملاپ کا ذریعہ تھا۔ جیسا کہ اس کے ترکی نام ہی سے ظاہر ہے یہ واقعی گرینڈ بازار تھا۔ اگر کسی نے لاہور کی اچھرہ کی مارکیٹ دیکھی ہے تو اسے سو سے ضرب دیں یہاں خریداری مطلوب ہے تو کھانے پینے، سجانے، پہننے، تحفے میں دینے، زیور کے طور پر استعمال کرنے غرضیکہ قسم قسم اور ہر قسم کی خریداری کے لیے اس بازار کو دیکھے بغیر استنبول کا سیاح واپس جا ہی نہیں سکتا۔ گرینڈ بازار اس لحاظ سے بھی اہمیت رکھتا ہے کہ اس کے عقب میں 1506ء میں تعمیر ہونے والی شاندار مسجد بیازت ہے۔ اسی طرح ایمینونو میں نئی مسجد (News Mosqe) کے قریب ایک اور انوکھا بازار Spice Bazzar بھی دیکھنے کی چیز ہے جہاں دنیا کے پودوں اور پھلوں کے قہووں کی اقسام اور بیج ملتے ہیں۔ اکثر لوگوں نے تو پوری پوری زندگی ان مصالحوں اور کھانے کے بیجوں کو نہ تو دیکھا، چکھا یا ان کے بارے میں سنا ہو گا جو سپائس بازار کی سیکڑوں دکانوں میں موجود ہیں۔
باسفورس کے سمندر کے ذریعے جب بھی کیدی کویا سے جہاز لینے پہنچے ساحل کے ساتھ ساتھ دس بارہ جفت سازوں کے کھوکھوں پر اور سستی خوراک کی اس سے بھی زیادہ ریہڑیوں پر بزنس ہوتا دیکھا۔ امریکا میں ایسے جفت ساز زیادہ تر روسی ہوتے ہیں جن کا کام جوتے مرمت اور پالش کرنا ہوتا ہے لیکن بحیرہ باسفورس کے کنارے جفت ساز اور ریڑھی بان ترک ہیں لیکن بہت چھوٹے کاروباری ہونے کے باوجود اپنے کاروباری اصولوں میں بیحد پکے ہیں۔ بہت سے لوگ مہنگی جوتوں کی دکانوں پر نہیں جا سکتے اسی طرح کئی مسافر یا سیاح ریہڑھی کی سستی خوراک سے پیٹ بھرتے ہیں۔ ہمارے ایک ساتھی نے ایک جفت ساز سے اپنے بوٹوں کے لیے تسمے خریدے دوسرے روز اس نے اسی موچی سے کہا کہ وہ تسمے چھوٹے ہیں اس لیے وہ خریدے ہوئے تسمے لمبے تسموں سے ایکسچینج کرنا چاہتا ہے۔ موچی نے صاف انکار کرتے ہوئے ہمارے ساتھی کی خواہش رد کر دی اور اسے دوسرے لمبے تسمے خریدنے کے لیے کہا۔ ریڑھی بانوں کے پاس Chestnuts، گرما گرم بھٹے اور تِلوں والی گول رسہ نما روٹیاں برائے فروخت ہوتی ہیں جنھیں وہ SIMIT کہتے ہیں۔
ہمارے ساتھی نے Chestnut خریدیں لیکن ان میں سے چند تبدیل کرنے کی خواہش کی جس پر ریڑھی بان نے لفافہ واپس پکڑ کر اسے Chest Nut فروخت کرنے سے انکار کر دیا۔ ہمارے ساتھی نے وہی لفافہ لے لینے کی کوشش کی تو بھی ریڑھی بان نے انکار کرتے ہوئے ہاتھ کے اشارے سے اس طرح وہاں سے چلے جانے کے لیے کہا جس کا واضح مطلب ’’دفع ہوجاؤ‘‘ جیسا تھا۔ استنبول میں بڑے بڑے کاروباری نہایت شائستہ اور اکاموڈیٹ کرنے والے ہیں لیکن ان دو یعنی موچی اور ریڑھی بان لیول کے کاروباریوں کا رویہ ہمارے ساتھی کے لیے ناقابل فہم تھا۔ کیا موچی اور ریڑھی بان صحیح کاروباری اصول پر چل رہے تھے۔ یہ اب تک ایک سوالیہ نشان ہے۔
↧
پاکستان، سعودی عرب تعلقات تاریخ کے نئے موڑ پر
پاکستان کے برادر اسلامی ملکوں کے ساتھ تعلقات ہمیشہ خوش گوار رہے ہیں، تاہم حکومتوں کے بدلنے سے خارجہ پالیسیوں میں آنے والے تغیرات خارجہ تعلقات پر اثر انداز ضرور ہوتے رہے ہیں ۔
پاکستان اور سعودی عرب کے باہمی تعلقات کی اپنی ایک تابناک تاریخ ہے۔ تاریخ پاکستان کے چھ عشروں میں پاک سعودی تعلقات میں معمولی اتار چڑھاؤ کے کئی دور بھی آئے ہیں ۔ پاکستان کے سابق صدر ایوب خان مرحوم اور سعودی عرب کے شاہ فیصل بن عبدالعزیز کے درمیان دوستانہ تعلقات نے دونوں ملکوں کو ایک ساتھ آگے بڑھنے کا موقع فراہم کیا ۔ عالم اسلام کے تنازعات کے حل میں پاکستان کے ثالثی کے کردار نے بھی سعودی حکمرانوں کی نظروں میں اسلام آباد کے قد کاٹھ میں اضافہ کیا۔
قدرتی وسائل بالخصوص تیل کی دولت سے مالا مال مملکت سعودی عرب نے پاکستان کی ہر مشکل میں بھرپور مدد کی ۔ پاکستان کو جب بھی کسی قدرتی آفت نے آگھیرا سعودی عرب مصیبت زدہ پاکستانیوں کا پہلا سہارا ثابت ہوا۔ سنہ 1965ء کی پاک ، بھارت جنگ کے دوران سعودی عرب نے پاکستان کو 09 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی۔ سابق صدر جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں جب افغانستان پر روسی فوج نے یلغار کی تو اس کے نتیجے میں لاکھوں افغان باشندے ہجرت کرکے پاکستان پہنچے۔ سعودی عرب افغان پناہ گزینوں کی بحالی کے لیے امداد فراہم کرنے والا پہلا ملک تھا، جس نے مختلف ادوار میں کم سے کم35 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی۔ آج تک سعودی عرب کے کئی ادارے پاکستان کی سر زمین سے افغان مہاجرین کی مدد کر رہے ہیں ۔
یاء الحق کی طیارہ حادثے میں وفات کے بعد پاکستان سیاسی طور پر عدم استحکام کا شکار رہا تاہم اس عرصے میں بننے والی بے نظیر اور نواز شریف کی حکومتوں کے ساتھ بھی ریاض کے تعلقات یکساں رہے۔ سعودی اخبار’’المدینہ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق سنہ 1998ء میں جب پاکستان نے ایٹمی دھماکوں کا فیصلہ کیا تو پوری دنیا بالخصوص مغرب اور امریکا نے پاکستان پر سخت دباؤ ڈالا اور بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں اسلام آباد کو دھماکوں سے روکنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ ایسے میں سعودی عرب نے پاکستانی حکومت کے حوصلے بلند رکھے اور یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ ایٹمی تجربات سے پیچھے نہ ہٹے۔ اس پر سعودی عرب کے مغربی بہی خواہوں کو سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یوں پاکستان کے ایٹمی دھماکوں میں سعودی عرب کی منشاء بھی شامل تھی‘‘۔
اکتوبر2005ء میں پاکستان میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے بعد سعودی عرب پاکستان کو امداد فراہم کرنے والے ڈونر ممالک میں بھی پہلے نمبر رہا ۔ پاکستان میں سیلاب زدگان کی مدد کے لیے سعودی حکومت کے براہ راست تعاون سے ہمہ وقت آج بھی کئی ادارے سرگرم ہیں جو سالانہ سیلاب سے متاثرین کی امداد پر ایک ملین ڈالر سے زائد کی رقم صرف کرتے ہیں ۔ یوں سعودی عرب پاکستان کا ہمیشہ مشکل کا ساتھی رہا۔
سابق فوجی صدر اور سعودی عرب کے درمیان آغاز میں تعلقات اچھے رہے۔ دونوں ملکوں کی مسلح افواج نے متعدد مرتبہ مشترکہ جنگی مشقیں بھی کیں۔ تاہم مشرف کے آخری دور اور صدر آصف علی زرداری کے پانچ سالہ دور حکومت میں سعودی عرب سے تعلق قدرے سرد مہری کا شکار رہے۔ اس کی بنیادی وجہ پاکستانی حکومت کی داخلی معاشی پالیسیاں بالخصوص کرپشن نے سعودیوں کو ناراض کیے رکھا۔ گذشتہ برس مسلم لیگ نون کی حکومت کے قیام کے بعد دونوں ملکوں کے مابین خوشگوا ر تعلقات کا از سر نو آغاز ہوا ہے۔ اس ضمن میں تازہ پیش رفت2013ء کے اختتام کے ساتھ ہوئی ۔ بعض مغربی اخبارا ت یہ الزام لگا چکے ہیں کہ سعودی عرب نے پاکستان کے جوہری پروگرام میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ ان افواہوں کی غیر جانبدار ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ البتہ اس ضمن میں تازہ پیش رفت 2013ء کے اختتام پر صدر پاکستان ممنون حسین کے دورہ سعودی عرب سے شروع ہوئی ہے۔ اخباری ذرائع بتا تے ہیں کہ سعودیہ اور پاکستان نے 2014ء کے اوائل میں ایک نئی تزویراتی حکمت عملی کے تحت آگے بڑھنے کافیصلہ کیا ہے۔
اس حکمت عملی کے تحت دفاعی شعبے میں دونوں ملک ایک دوسرے کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں بھرپور مدد فراہم کریں گے۔ آغاز کا ر کے طور پرسعودی عرب نے پاکستان اور چین کے تعاون سے تیار کردہJF17 تھنڈر طیاروں، آگسٹا آبدوزوں اور دیسی ساختہ الخالد ٹینک کی خریداری میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔گو کہ ابھی جنگی جہازوں اور الخالد ٹینک کی خریداری کی بات چیت پائپ لائن میں ہے لیکن دونوں ملکوں کے درمیان جلد ہی اس ضمن میں عملی معاہدہ طے پا نے والا ہے۔ سعودی نائب وزیردفاع کے دورہ پاکستان میں ان کے ہمراہ آنے والے ایک عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک سعودی اخبار ’’الحیاۃ‘‘ کو بتایا کہ اسلام آباد اور ریاض ایک بڑے تزویراتی دفاعی تعاون کے منصوبے کی منظوری کی طرف بڑھ رہے ہیں، تاہم انہوں نے دفاعی منصوبے کی تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔
سعودی ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز نے پاکستان کا تین روزہ دورہ کیا اور اس دوران صدر مملکت ممنون حسین ، وزیراعظم میاں نواز شریف ، آرمی چیف جنرل راحیل شریف ، مشیر خارجہ سرتاج عزیز، وزیر دفاع خواجہ آصف اور سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق سے بھی ملاقاتیں کیں اور دفاعی اوراقتصادی تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا۔ سعودی ولی عہد نے پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کو تاریخی قرار دیا اور کہا کہ پاکستان سعودی عرب کا قریب ترین دوست اور حلیف ہے اور یہ تعلقات وقت گزرنے کے ساتھ مزید مستحکم ہوں گے۔ صدر مملکت ممنون حسین نے کہا کہ پاکستانی حکومت سعودی عرب کے ساتھ جامع سٹریجک تعاون کو مزید مستحکم بنانا چاہتی ہے۔ سعودی ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبد العزیز کے اس تین روزہ دورے کے دوران ہائیڈرو پاور پراجیکٹ اور یوریا کھاد کی خریداری کے معاہدوں پر دستخط کئے گئے۔
غیرملکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق پاکستانی آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے چار فروری کو دورہ سعودی عرب، جنوری میں سعودی وزیر خارجہ شہزادہ سعود الفیصل اور نائب وزیردفاع شہزادہ سلمان بن عبداللہ بن عبدالعزیز کے دورہ پاکستان کے دوران پاکستان سے اسلحہ کی خریداری سے متعلق تفصیلی بات چیت کی گئی ہے۔ جنرل راحیل شریف کے دورہ ریاض کے دوران دونوں ملکوں کی مسلح افواج کی مشقیں شروع کرنے پراتفاق کیا گیا ہے۔ یہ مشقیں بھی جلد شروع ہونے والی ہیں۔
ذرائع کے مطابق سعودی نائب وزیردفاع شہزادہ سلمان نے ایک اعلیٰ اختیاراتی وفد کے ہمراہ اپنے تین روزہ دورے کے دوران پاکستان کے محکمہ دفاع سے متعلق اہم اداروں کا بھی ’’دورہ‘‘ کیا۔ سعودی وفد نے مسلح افواج کے جنرل ہیڈ کوارٹر (جی ایچ کیو)، ایئر ڈیفنس کمانڈ آف پاکستان ائیر فورس، پاکستان آرڈیننس فیکٹریز اور پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس کامرہ PAC کا بھی دور ہ کیا ۔ کامرہ کمپلیکس دورے کے دوران سعودی نائب وزیردفاع نے پاک، چین مشترکہ مساعی سے تیار ہونے والے’’جے ایف 17 تھنڈر‘‘ کا بھی معائنہ کیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پچھلے چار ماہ کے دوران صرف سعودی عرب ہی نہیں بلکہ کئی دوسرے خلیجی ملک بھی پاکستان سے دفاعی تعاون بڑھانے پر بات کر چکے ہیں ۔ اس سلسلے میں سعودی وفد کی آمد سے قبل عراق ، یمن اور اردن کے وفود بھی کامرہ ایروناٹیکل کمپلیکس کا دورہ کر چکے ہیں۔ سعودی عرب پاکستان سے نہ صرف تیار شدہ اسلحہ حاصل کرنا چاہتا ہے بلکہ ریاض کی اصل خواہش اپنی ڈیفنس انڈسٹری کے لیے پاکستانی ماہرین کی خدمات کا حصول ہے۔ ذرائع کے مطابق اب تک ہونے والی بات چیت میں پاکستانی ماہرین کی خدمات پربھی تبادلہ خیال ہوا ہے۔
پاکستان کے بعض اخبارات نے سعودی عرب کی جانب سے دو ڈویژن فوج کی فراہمی کی ضرورت سے متعلق بھی خبریں چھاپی ہیں، تاہم سعودی ذرائع ابلاغ ان خبروں کی تصدیق نہیں کر رہے۔ البتہ کچھ غیر ملکی بالخصوص پاکستان سے فی سبیل اللہ کی دشمنی رکھنے والے بھارتی اخبارات نے اطلاع دی ہے کہ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان تہران کے جوہری معاہدے پر ہونے والی ڈیل کے بعد سعودی عرب دفاعی پوزیشن میں آگیا ہے۔ پاکستان کے ساتھ جنگی طیاروں ، ٹینکوں ، آبدوزوں اور میزائل ٹیکنالوجی کے لیے ہونے والی بات چیت اسی کا نتیجہ ہے۔ پاکستان مشکل حالات میں پہلے بھی اپنی افواج کو سعودی عرب بھجوا چکا ہے۔1990میں خلیج جنگ کے دوران 15ہزار پاکستانی سپاہی سعودی عرب میں مقدس مقامات کی حفاظت کی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اس لیے ریاض کی جانب سے اسلام آباد سے ہنگامی ضرورت کے لئے فوج کا تقاضا
گوکہ ابھی جنگی جہازوں اور الخالد ٹینک کی خریداری کی بات چیت جاری ہے۔ سعودی نائب وزیردفاع کے دورہ پاکستان میں ان کے ہمراہ آنے والے ایک عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک سعودی اخبار ’’الحیاۃ‘‘ کو بتایا کہ اسلام آباد اور ریاض ایک بڑے تزویراتی دفاعی تعاون کے منصوبے کی منظوری کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ آیا سعودی عرب اسلحہ کی بڑی بڑی ڈیلیں کرنے میں کیوں دلچسپی لے رہا ہے۔ اس ضمن میں عرب ذرائع ابلاغ کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ عرب ممالک میں آنے والی سیاسی تبدیلیوں کے تناظر میں سعودی عرب اندرونی اور بیرونی اثرات سے بچنے کے لیے حفاظتی تدابیر کر رہا ہے۔
سعودی عرب کی دفاعی صلاحیت
عرب خطے میں سعودی عرب بہترین ، پیشہ وارانہ طاقتور مسلح افواج کا حامل ملک ہے۔ مسلح افواج میں سعودی عریبین آرمی، سعودی رائل ایئر فورس، رائل سعودی نیوی ، رضاکار فورس اور سعودی عریبین نیشنل گارڈ(SANG) جیسے بڑے ادارے شامل ہیں جن کی مجموعی افرادی قوت چارلاکھ پر مشتمل ہے۔ مسلح افواج 400 اینٹی ایئر کرافٹ گنیں، پیشگی وارننگ پر فوری کارروائی کی صلاحیت کے حامل F 15 اسٹرائیک ایگل، جدید ترین یورو فائیٹر ٹائیفون، پا نیوا ٹو رنیڈو، جدید ترینF15 SA، جدید ترین راڈار سسٹمAESA ،جوائنٹ ہیلمٹ ماؤنٹڈ کیوننگ سسٹم جیسے دفاعی آلات سے لیس ہے، درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل 500 الفارس آرمرڈ کیرئیر وہیکل۔ رائل سعودی اسٹریٹیجک میزائل فورس(RSSMF) کے پاس طاقت ور ترین میزائلوں میں چینی ساختہ ’’ڈونگ فنگSS4‘‘ میزائل ہے۔ گوکہ اس کی ہدف کو نشانہ بنانے کی رینج درمیانی ہے لیکن کارکردگی کے اعتبار سے یہ ایک مؤثر ہتھیار ہے۔
پاکستان کیلئے سعودی عرب کی دفاعی اہمیت
ہر چند کہ پاکستان دفاعی طور پر ایک ناقابل تسخیر اور کسی حد تک خود کفیل ملک بن چکا ہے تاہم سعودی عرب جیسے دیرینہ دوستوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ حالات حاضرہ میں پاکستان اندرونی اور علاقائی طور پر ایک بڑی تبدیلی سے گزر رہا ہے۔ پاکستانی حکومت نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات شروع کیے ہیں۔ ظاہر ہے مذاکرات کی یہ کوشش محض اتمام حجت کے لیے ہے۔ اگر فریق ثانی(طالبان) کی جانب سے عسکریت پسندی کا سلسلہ بند نہ ہوا یا انہوں نے اپنے مطالبات کے حوالے سے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا تو پاکستان کے پاس طاقت کے استعمال کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہے گا۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے سے قبل اسلام آباد نے اپنے سب سے قریبی اتحادی سعودی عرب کو اعتماد میں لیا ہے۔ سعودی عرب کی جانب سے اس ضمن میں ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ افغانستان سے امریکی فوجیوں کے مابعد انخلاء جو منظرنامہ سامنے آ رہا ہے، اس کے لیے پاکستان اور سعودی عرب کے لئے سرجوڑ کر بیٹھنا ضروری ہے۔ افغان طالبان سعودی عرب پر کسی دوسرے مسلمان ملک کی نسبت زیادہ اعتبار کرتے ہیں ۔ اس لیے افغانستان کو ممکنہ خانہ جنگی کی آگ سے بچانے کے لیے پاکستان اور سعودی عرب کلیدی کردار اد ا کر سکتے ہیں ۔ افغان عوام بھی اسی کی توقع رکھتے ہیں۔ بعض ذرائع بتاتے ہیں کہ پاکستانی اور سعودی حکام کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں میں امریکیوں کی واپسی کے بعد کے افغانستان کے معاملات پر خاص طور پر تبادلہ خیال ہوتا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان کی طرح سعودی عرب بھی موجودہ افغان حکومت سے خوش نہیں ہے۔ ریاض کی خواہش ہے کہ افغانستان میں طالبان سمیت تمام نمائندہ دھڑوں پر مشتمل قومی حکومت کا قیام عمل میں لایا جانا چاہیے کیونکہ ملک کو خانہ جنگی سے بچانے کا صرف یہی ایک نسخہ کیمیا ہے۔ اگر کسی ایک گروپ کو بھی نظرانداز کیا گیا تو کشت و خون کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ دوبارہ شرو ع ہو سکتا ہے
کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔
Pakistan and Saudi Arabia Relations
↧