بوسنیا کی لڑائی کو 25 سال گزر گئے ، لیکن اس کے زخم ان مائوں کے لئے آج بھی تازہ ہیں جن کے جوان بیٹے اور جوان بیٹیاں جنگ کی نذر ہو گئیں ۔ اس جنگ کا ماجرہ کچھ یوں ہے کہ یوگوسلاویہ بکھرنے کے بعد سربیا، کروشیا اور سلووینیا میں لڑائی چھڑی ہوئی تھی کہ بوسنیا ہرزیگووینا نے بھی اپنی آزادی کا اعلان کر دیا۔ بوسنیا ہرزیگووینا میں سرب عیسائی، کروٹس اور بوسنیک مسلمان مل کر رہتے تھے تاہم مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ یوگوسلاویہ ٹوٹنے کے بعد سربیا کی مملکت بوسنیا کو بھی اپنے زیر نگیں رکھنا چاہتی تھی۔ بلغراد کے انتہا پسند چاہتے تھے کہ ’’گریٹ سرب ‘‘ریاست قائم کریں اور جہاں جہاں سرب رہتے ہیں وہ ان کی سرزمین ہو۔ 3 مارچ 1992 ء میں بوسنیا کے عوام نے ایک ریفرنڈم کے ذریعے آزادی کے حق میں فیصلہ دیا اور علی جاہ عزت بیگووچ کو صدر منتخب کیا۔ حارث سلاجک وزیر اعظم بنے ۔
آزادی کا اعلان ہوتے ہی مسلمان صدر علی جاہ عزت بیگوچ اور ان کی وفادار فوجوں کیخلاف سربیا کی حکومت نے اپنی فوجیں بوسنیا میں داخل کر دیں۔ سرب آبادی نے آزادی کے ریفرنڈم کی مخالفت کی تھی اور سرب ڈیموکریٹک پارٹی نے سرب فوج کی مدد کی۔ مسلمان فوج انتہائی قلیل اور جدید اسلحہ سے محروم تھی جبکہ سربیا ایک طاقتور ریاست تھی ۔ اس کی افواج نے بوسنیا میں داخل ہوتے ہی نسل کشی کا آغاز کر دیا۔ مئی 1992 ء سے لے کر اگست 1992 ء تک بوسنیا کے شہر پریجیڈور میں تین ہزار سے زائد مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔ اس قتل عام میں اومارسکا کیمپ کی داستان بھی شامل ہے۔ رزاق ہوکانووک جو کہ اومارسکا کیمپ میں قید رہے اور اب تک زندہ ہیں کا کہنا ہے کہ پریجیڈور زندہ دل لوگوں کا شہر تھا۔ چرچ اور مساجد آمنے سامنے تھے لوگ آپس میں مل جل کر رہتے تھے، ایک دوسرے کی شادیوں اور جنازوں میں شریک ہوتے تھے۔ بوسنیا میں سربوں نے بوسنین سرب ملٹری اور پولیس کے نام سے مختلف علاقوں کا کنٹرول سنبھال کر بوسنیک مسلمانوں اور کروٹس کو گھروں سے بے دخل کرنا شروع کر دیا ۔ جو مزاحمت کرتا اسے مار دیا جاتا اور باقیوں کو قید کر کے مختلف کیمپوں میں رکھا جانے لگا۔
اس وقت کے پریجیڈور کے جج اور کیمپ میں بچ جانیوالے نصریتا سیواچ کے مطابق مئی کے ابتدائی دنوں میں سرب فوج اور سرب ڈیموکریٹک پارٹی نے بوسنیک اور کروٹس منتخب نمائندوں کو ان کے عہدوں سے الگ کر کے دفاتر سے نکالنا شروع کر دیا۔ بوسنیا میں سینکڑوں کیمپ قائم کر دیئے گئے جہاں نان سرب آباد ی (بوسنیک اور کروٹس) کو قید کر کے رکھا گیا لیکن اومارسکا کا کیمپ اس لئے زیادہ بدنام ہوا کہ اس میں قید زیادہ تر افراد کو قتل کر دیا گیا۔ باپ کو بیٹے کے سامنے اور بیٹے کو باپ کے سامنے مارا گیا۔ کیمپوں میں قید افراد کے ساتھ غیرانسانی سلوک روا رکھا گیا۔ جب ایک برطانوی صحافی ایڈولیامی نے ان کیمپوں کا دورہ کیا تو اس نے اس بات کی تصدیق کی کہ قیدیوں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ تھی اور وہ بھوک اور بیماریوں کی وجہ سے ہڈیوں کا ڈھانچہ بنے ہوئے تھے اور ان کے جسموں پر تشدد کے نشانات عام تھے۔
بوسنیا کی جنگ کے دوران جہاں پر عام شہریوں کو قیدی بنا کر رکھا گیا ان میں اومارسکا کا کیمپ بدنام زمانہ کیمپ تھا کیونکہ یہاں قیدیوں کو جانوروں کی طرح رکھا گیا اور وہ تکالیف پہنچائیں گئیں کہ انسانیت شرما گئی۔ اومارسکا مائینز کمپلیکس پریجیڈور ٹائون سے باہر 20 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔ سب سے پہلے عام شہریوں کو قیدی بنا کر مئی 1992 کے آخر میں اسی کیمپ میں لایا گیا۔ مسلمان قیدیوں کو عموماً رائفلز کے بٹوں سے یا آہنی سلاخوں سے مارا پیٹا جاتا۔ اومارسکا کمپلیکس کی دونوں عمارتیں قیدیوں سے کچھا کھچ بھری ہوئی ہوتی تھیں۔ خواتین قیدیوں کو الگ انتظامی بلاک میں رکھا گیا۔ اس کیمپ میں تقریباً تین ہزار سے زائد قیدیوں کو ٹھونسا گیا تھا۔ صفائی کے ناقص انتظام اور دن میں ایک وقت کھانا ملنے سے کئی قیدی بیمار پڑ کر دم توڑ گئے۔ کئی قیدیوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد مار دیا جاتا۔