Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all articles
Browse latest Browse all 6211

نیلسن مینڈیلا کی جدوجہد اور سیاہ فاموں کی آزادی

$
0
0

نیلسن مینڈیلا نے اپنی جوانی سے لے کر تمام عمر اپنے ملک اور اپنی قوم کی آزادی کے لیے صرف کر دی۔ اسے اپنے بیوی بچوں اور خاندان سے الگ رہ کر بار بار قید و بند سے گزرنا پڑا اور اس کے آخری 27 برس تو مسلسل جیل میں گزرے۔ وہ ایک قانون دان اور لاء گریجویٹ تھا۔ مگر سفید فام سامراجیوں نے جزیرہ روبن میں اس سے عادی مجرموں کا سا سلوک کیا۔ مزدوروں کی طرح بوجھ اٹھوایا۔ اس کے باوجود اس کے پائے اثبات میں کبھی لغزش نہ آئی۔ وہ عزم و ہمت کا پہاڑ ثابت ہوا۔ وہ بے پناہ سیاسی شعور اور عمرانی فراست سے بہرہ ور تھا۔ 

جب گرم لوہے پر ضرب لگانے کا وقت آیا تو اس کی پروا کیے بغیر کہ اس کے ساتھیوں کی جانب سے بک جانے کا الزام لگایا جا سکتا ہے، اس نے جیل میں رہ کر گورے حکمرانوں سے گفت و شنید کا ڈول ڈالا۔ صبرو تحمل کے ساتھ تحریک کو ہلاکت خیز ٹکراؤ سے بچایا اور آخر کار سفید فام حکمرانوں کو قائل کرنے میں کامیاب رہا کہ سیاہ فام اکثریت کو اس کے جمہوری حقوق دینا ہی وقت کا تقاضا ہے اور اب وہ وقت کے دھارے کے خلاف چلتے ہوئے جنوبی افریقیوں پر نسلی امتیاز کی پالیسی مزید مسلط نہیں رکھ سکتے۔ بالآخر حکومت اسے رہا کرنے پر مجبور ہو گئی۔ وہ دنیا میں جہاں کہیں بھی گیا لوگوں نے اس کے راستے میں آنکھیں بجھائیں اور اس کا والہانہ استقبال ہوا۔ 

اس عظیم افریقی سیاست دان نے اپنے ساتھیوں کو بھی قائل کیا کہ اب تشدد کے بجائے مفاہمت اور گفت و شنید کی پالیسی ہی ہماری کامیابی کا راستہ ہموار کرے گی۔ مذاکرات کے کئی دور چلے اور عبوری آئین اور آزادانہ انتخابات کے مرحلے طے پا گئے۔ 27 اپریل 1994 کو سیاہ فام جنوبی افریقیوں نے زندگی میں پہلی بار ووٹ ڈالے اور اس کی جماعت افریقین نیشنل کانگرس نے 62.6 فی صد کی اکثریت سے انتخابات جیت لیے۔ انہی دنوں اسے نوبل امن انعام سے نوازا گیا۔ 

10 مئی 1994 کی روشن صبح انتقال اقتدار کی شان دار تقریب منعقد ہوئی جس میں اس نے جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر مملکت کا منصب سنبھالا۔ اس روز اس عظیم سیاہ فام سیاست دان نے کہا: ’’آئندہ کبھی نہیں، کبھی نہیں اور کبھی نہیں یہ ہو گا کہ یہ خوبصورت سرزمین دوبارہ کسی طرح کے ظلم و ستم سے دوچار ہو۔ اس قدر شاندار کامیابی پر سورج کبھی غروب نہیں ہو گا۔‘‘ جب وہ جیل سے باہر آیا تو اس نے ظالم اور مظلوم دونوں کو آزادی دلانا اپنا مشن بنا لیا۔ اب اس کی سوچ یہ تھی کہ جس طرح مظلوم کو آزادی ملنا چاہیے اسی طرح ظالم کو بھی آزادی دلانا چاہیے۔ کیونکہ وہ دوسروں کی آزادی چھین کر نفرت اور تعصب کا قیدی بن چکا ہوتا ہے۔

 آزادی ملنے اور برسراقتدار آنے کے بعد اس نے کہا: ’’ہم نے اپنے سفر کا آخری قدم نہیں بلکہ ایک طویل تر اور مشکل شاہراہ پر پہلا قدم اٹھایا ہے. ہماری آزادی سے وابستگی کا حقیقی امتحان اب شروع ہو رہا ہے۔‘‘ وہ اس امتحان میں کامیاب ثابت ہوا۔ برسراقتدار آ کر اس نے کسی سے انتقام نہیں لیا۔ اس نے گوروں کو معاف کر دیا جو مدت سے اس کے سیاہ فام ہم وطنوں پر ظلم و ستم ڈھاتے رہے تھے۔ اس نے تالیف قلب سے کام لیا۔ گوروں سے ان کے عہدے نہیں چھینے، اور کالے اور گورے کی تمیز ختم کر کے ایک ہم آہنگ قوم کی تعمیر کر ڈالی۔

 محسن فارانی



Viewing all articles
Browse latest Browse all 6211

Trending Articles