یکم ستمبر 1939ء، طلوعِ سحر،جنگ کا کوئی اعلان نہ کیا گیا۔ ہٹلر کی زبردست جنگی مشن کی پہلی طوفانی موجیں پولینڈ کی مغربی سرحدوں سے داخل ہوئیں۔ مشرقی پروشیا، پومی رینیا، سلیشیا اور سلوواکیا سے بیک وقت نازی فوجیں شدید تیزی اور تندی سے پیش قدمی کرتی ہوئی وارسا کی طرف بڑھیں۔ دوسری جنگ عظیم کی یہ پہلی بڑی مہم تھی۔ اسے ان حملوں کا پیش خیمہ سمجھنا چاہیے جو آگے چل کر ممالک زیریں اور دیگر پر ہوئے۔ موسم بڑی جنگجو صفوں کے لیے موزوں تھا۔
دریاؤں کا پانی انتہائی پست سطح پر پہنچ گیا تھا اور انہیں عبور کر لینا بہت سہل تھا۔ جرمن فوجوں کی پیش قدمی میں ایک دلدوز صحت و تنظیم نمایاں تھی۔ انہیں دیکھتے ہی 1914ء میں بیلجیم پر جرمن حملے کی یاد تازہ ہو رہی تھی۔ لیکن 1939ء کی یورش میں ایک خصوصیت تھی۔ اب وہ حالت نہ تھی کہ پیش قدمی کرتے ہوئے سپاہیوں کے بے شمار لشکر دن بھر میں صرف چند میل آ گے جائیں بلکہ برق رفتار جنگ کا یہ پہلا مظاہرہ تھا۔ مشینی دور کے ساتھ فوج کی مطابقت اس پیمانے پر پہنچ گئی تھی، جسے دیکھتے ہی ہوش و حواس گم ہو جاتے تھے۔ حملے کا فارمولا تباہی خیز حد تک سادہ تھا۔
اول، دشمن کی صفوں کے پیچھے پانچویں کالم کے ذریعے سے اپنے لیے راستہ ہموار کر لینا۔
دوم، ایک تیز اور اچانک ضرب کے ذریعے مخالف ہوائی قوت کو زمین ہی پر تباہ کر ڈالنا۔
سوم ہوائی جہازوں کی بمباری سے دشمن کی آمدورفت اور نقل و حمل کے وسائل کو نقصان پہنچانا۔
چہارم فوجی اجتماعات پر بمبار آب دوزوں سے ایسے حملے کرنا کہ ان میں افراتفری پھیل جائے۔
پنجم، سبک رفتار فوجیں، موٹر سائیکلوں پر دستے، ہلکے ٹینک اور موٹروں کے ذریعے سے نقل و حمل کرنے والی توپیں بھیجنا تا کہ تیزی سے دشمن کے علاقے میں گھس جائیں۔
ششم، بھاری ٹینکوں سے کام لینا تا کہ جا بجا وہ مشینی یورشوں کے لیے عقب میں جگہیں بنا لیں۔
سب سے آخر میں باقاعدہ فوج یعنی پیادہ سپاہ کا توپ خانے کے ساتھ آگے بڑھنا تا کہ مزاحمت ختم ہو جائے اور پیادہ فوج ہر اول سے مل جائے۔ اس پوری کارروائی میں فوجی ٹینک ایک کلیدی حربہ تھا۔ یہ پٹڑی والی بکتربند گاڑی تھی جو پہلے پہل انگریزوں نے 1916ء میں استعمال کی تھی، لیکن 1918ء تک اس کی حیثیت صرف اتنی تھی کہ پیش قدمی کرنے والی اس پیادہ فوج کے لیے ایک پناہ کا کام دیتی۔ مگر اب جرمنوں نے ٹینکوں کو توپ خانے کے متحرک بازو کی حیثیت میں استعمال کیا۔ ان جنگی کارروائیوں کا اہتمام جرمنی کے نہایت تجربہ کار فوجی قائدین کے ہاتھ میں تھا۔ جنرل والتھر فان برخش کماندار اعلیٰ تھا۔ جنرل فرینز ہالڈر اس کا چیف آف سٹاف تھا۔ جنرل فان رونسٹاٹ ان تین فوجوں کا کماندار تھا، جو جنوبی سمت سے حملہ کررہی تھیں۔
شمالی سمت سے دو فوجیں حملہ آور تھیں، جن کی کمان جنرل فیڈوفان بوک کے ہاتھ میں تھی۔ اس فوجی قیادت کے شان دار ہونے میں کلام کی کیا گنجائش تھی؟ حملہ آور جرمنوں کی تعداد پولستانیوں سے بہت زیادہ تھی۔ جرمن فوج کی تعداد کے متعلق مختلف لوگوں نے مختلف اندازے لگائے۔ علاوہ بریں مختلف مقاصد کے لیے جو فوجیں استعمال کی گئیں ان کے باب میں بھی اندازے مختلف رہے۔ بہرحال واضح ہوتا ہے کہ متصرف اور محفوظ فوجوں کو شامل کرتے ہوئے کل تعداد دس لاکھ سے زائد تھی۔ آتش بار اسلحہ کی تعداد میں جرمنی کی برتری کا تناسب دو ایک کا تھا لیکن ٹینک دشمن کے مقابلے میں بیس گنا تھے۔
رجسٹروں کے اعتبار سے پولستانی فوج کی تعداد بیس لاکھ تھی مگر اس فوج کی عام نقل و حرکت 31 اگست 1939ء یعنی حملے کے ایک روز پیشتر تک شروع نہ ہوئی۔ جب حملے کا زور بڑھا تو مقابلے پر پولستانی فوج صرف چھ لاکھ تھی۔ نازیوں کی برق رفتار جنگ کا سب سے پہلا منظر ہوائی حملوں کا تھا۔ جرمنوں کی ہوائی فوج پولستانیوں کے مقابلے میں تین گنا تھی۔ چودہ سو ہوائی جہاز جن میں غوطہ خور بمبار جہاز بھی شامل تھے، ان کے مقابلے میں پولستانی ہوائی جہاز صرف ساڑھے چار سو تھے۔ حقیقتاً کوئی ہوائی جنگ نہ ہوئی۔ جرمن حملوں کا مدعا یہی تھا کہ دشمن کے ہوائی جہاز زمین ہی پر تباہ کر دیے جائیں اور دو روز کے اندر اندر پوری ہوائی قوت تقریباً تباہ کر ڈالی۔ اس کے بعد بکتر بند جرمن فوج بے خطر آگے بڑھ سکتی تھی کیونکہ اوپر سے حملے کا کوئی اندیشہ باقی نہیں رہا تھا۔