آج کل براعظم امریکہ کو سمندری طوفانوں کے تھپیڑوں کا سامنا ہے، جن کی شدت ایک سے لے کر پانچ کے تک درجوں میں ناپی جاتی ہے۔ ان میں ایک سب سے ہلکا اور پانچ شدید ترین درجہ ہے۔ طوفان کی شدت ناپنے والا یہ نظام 1969 میں دو امریکہ سائنس دانوں ہربرٹ سیفر اور رابرٹ سمپسن نے وضع کیا تھا۔ جب کوئی سمندری طوفان درجہ پانچ تک پہنچ جاتا ہے تو اس کے دوران چلنے والی ہواؤں کی رفتار ڈھائی سو کلومیٹر فی گھنٹہ ہو جاتی ہے۔ یہ ہوا اس قدر تباہ کن ہوتی ہے کہ اگر اس کی رفتار مزید تیز ہو بھی جائے تب بھی تباہی کی شدت میں کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ جزائر کریبیئن میں درجہ پانچ کی شدت والے ’ارما‘ نامی طوفان نے گذشتہ چند دنوں کے دوران ہولناک تباہی مچائی ہے۔ یہ طوفان نہ صرف سیفر سمپسن سکیل پر پہلے نمبر پر ہے بلکہ اس نے چند اور ریکارڈ بھی قائم کیے ہیں جن میں سے پانچ درج ذیل ہیں:
زبردست طاقت ارما کی ہواؤں کی رفتار 298 کلومیٹر فی گھنٹہ تک پہنچ گئی۔ یہ 1980 کے بعد سے ایک ریکارڈ ہے۔ ماہرِ موسمیات فلپ کلوٹسباک کے مطابق ارما کی شدت ہاروی سمیت گذشتہ پانچ طوفانوں کی مجموعی شدت سے بھی زیادہ ہے۔
طوفان کی طاقت دو دن تک مسلسل تیز ہوائیں نہ صرف ارما کی ہوائیں بےحد تیز رفتار تھیں بلکہ یہ دو دن تک متواتر چلتی رہیں۔ امریکی نیشنل ہریکین سینٹر کے ایرک بلیک کے مطابق بہت کم طوفان ایسے ہوتے ہیں جو اپنی شدت اتنی دیر تک برقرار رکھ سکتے ہیں۔
ہوا کا کم ترین دباؤ گذشتہ بدھ کے روز ارما کے مرکز میں کرۂ ہوائی کا دباؤ 914 ہیکٹو پاسکل ریکارڈ کیا گیا، جو اس سے قبل کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ طوفان کے مرکز میں ہوا کا دباؤ جتنا کم ہوتا ہے، اس کی شدت اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔ اس سے قبل یہ ریکارڈ 1985 میں آنے والے طوفان ’گلوریا‘ کے نام تھا جس کے دوران 919 ہیکٹو پاسکل دباؤ ریکارڈ کیا گیا تھا۔
'گرم'مرکز نہ صرف ارما کے مرکز کا دباؤ معمول سے بہت کم تھا، یہ مرکز دوسرے طوفانوں کے مقابلے پر کہیں زیادہ گرم بھی تھا۔ طوفان سمندر سے گرمی پا کر شدت پکڑتے ہیں، لیکن ان کے مرکز میں یہ گرمی استعمال ہو جاتی ہے اور وہ ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔ ارما کے مرکز میں درجۂ حرارت 22 ڈگری ریکارڈ کیا گیا۔ ماہرِ موسمیات مائیکل وینٹرس کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنی زندگی میں کبھی اتنا گرم طوفانی مرکز نہیں دیکھا۔
5 ہزاروں بموں کی طاقت طوفانوں کے ماہر کیری ایمانوئل کہتے ہیں کہ ارما کی تباہ کن قوت کا تخمینہ تقریباً 70 کھرب واٹ لگایا گیا ہے۔ ہہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران گرائے جانے والے تمام بموں کی مشترکہ قوت کا نصف بنتا ہے۔