ملکی سیاست کرپشن کے ایشو کے گرد گھوم رہی ہے اور اس میں دو رائے نہیں ہو سکتی کہ جماعت اسلامی کی قیادت پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں۔ نہ نوازشریف اور زرداری کی طرح جماعت اسلامی کی قیادت کی بیرون ملک جائیدادیں ہیں اور نہ عمران خان طرح وہ سینکڑوں کنال رقبے پر محیط گھر میں شاہانہ زندگی گزار رہی ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں میں سراج الحق نے نتھیا گلی کے وزیراعلیٰ ہائوس میں ایک دن بھی نہیں گزارا لیکن عمران خان صاحب نے اسے جتنا استعمال کیا، اتنا شاید گزشتہ بیس سالوں میں بھی استعمال نہیں ہوا۔
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی طرح جماعت اسلامی خاندانی جماعت ہے اور نہ پی ٹی آئی کی طرح شخصی۔ اس کے اندر جمہوریت کا یہ عالم ہے کہ کبھی کراچی کے اردو بولنے والے درویش سید منور حسن امیر منتخب ہوجاتے ہیں تو کبھی افغان سرحد پر مسکینی گائوں کے دیہات میں ایک مولوی کے گھر جنم لینے والے پختون سراج الحق قیادت سنبھال لیتے ہیں۔ سیاسی قائدین کی صف میں اگر کوئی رہنما سب سے زیادہ محنت کررہے ہیں تو وہ بلاشبہ سراج الحق ہی ہیں۔ صبح کراچی میں، دوپہر لاہور میں تو شام کو کہیں ملاکنڈ میں نظرآتے ہیں۔ تاہم ان سب کچھ کے باوجود جماعت اسلامی کی عوامی مقبولیت میں کمی آرہی ہے بلکہ وہ دن بدن قومی سیاست سے غیرمتعلق ہوتی جا رہی ہے۔
وہ کراچی جہاں کسی زمانے میں جماعت اسلامی کا طوطی بولتا تھا اور مئیر تک جماعت اسلامی سے منتخب ہوا کرتا تھا، وہاں آج انتخابی میدان میں جماعت اسلامی مقابلے کے بھی قابل نہیں رہی۔ لاہور جو کسی زمانے میں جماعت اسلامی کا گڑھ سمجھا جاتا تھا، سے جماعت اسلامی کے امیدوار منتخب نہ بھی ہوتے تو دوسرے نمبر پر ضرور آتے لیکن وہاں بد حالی کا یہ عالم ہے کہ این اے 120 کے ضمنی انتخاب میں جماعت کا امیدوار ایک ہزار ووٹ بھی حاصل نہ کرسکا۔ بلوچستان میں توجماعت اسلامی پہلے عوامی سطح پرمقبول جماعت تھی اور نہ اب بن سکتی ہے۔ جہاں تک خیبر پختونخوا کا تعلق ہے تو وہاں پر بھی عملاً جماعت اسلامی کی عوامی مقبولیت صرف ملاکنڈ ڈویژن تک محدود ہو کر رہ گئی ہے اور اب تو یہ لطیفہ نما فقرہ زبان زدعام ہو گیا ہے کہ جماعت اسلامی سیاسی جماعتوں کی نان کسٹم پیڈ گاڑی ہے جو صرف ملاکنڈ ڈویژن میں چل سکتی ہے۔ چنانچہ جماعت اسلامی کی قیادت خواب تو کچھ اور دیکھ اور دکھا بھی رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو اگلے انتخابات میں عوامی میدان میں جماعت اسلامی مزید سکڑ کر رہ جائے گی۔
جماعت اسلامی کا المیہ یہ ہے کہ وہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی طرح خالص سیاسی جماعت بن سکی اور نہ اس طرح کی دعوتی جماعت رہ سکی جس طرح کہ مولانا مودودی نے ابتدا میں اسے بنایا تھا۔ یہ جماعت اب بھی سیاست اور دعوت کو ساتھ ساتھ چلانے کی کوشش کر رہی ہے جو بیک وقت دو کشتیوں پر سواری ہے۔ دعوت بغیر کسی صلے کے مخاطب کی خیرخواہی کے جذبے کا تقاضا کرتی ہے جبکہ سیاست حریفانہ کشمکش کا نام ہے۔ دعوت مخاطب سے کہتی ہے کہ تم اپنی جگہ رہو لیکن ٹھیک ہوجائو جبکہ سیاست مخاطب کو ہٹا کر اس کی جگہ خود کو بٹھانے کی کوشش کا عمل ہے۔ قاضی حسین احمد مرحوم کے بعد اب سراج الحق صاحب بھی بھرپور کوشش کر رہے ہیں کہ جماعت اسلامی کو زیادہ سے زیادہ عوامی بنا لیں لیکن جب تک دعوت اور سیاست کی اس دوئی کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جاتا، تب تک جماعت اسلامی نہ تو دعوتی بن سکتی ہے اور نہ مکمل سیاسی۔
دوسرا بڑا المیہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے اندر تخلیقی اور تنقیدی سوچ کو پروان نہیں چڑھایا جا رہا۔ پہلے سے موجود لٹریچر اور سخت تنظیمی ڈھانچے کے جہاں بہت سارے فوائد ہیں، وہاں اس کا نقصان یہ ہے کہ تقلید کی ایک غیر محسوس روش پروان چڑھ گئی ہے۔ کئی حوالوں سے سالوں سے لگے لپٹے راستے پر جماعت گامزن ہے جبکہ روزمرہ کے معاملات میں قیادت جو فیصلہ کر لیتی ہے، اسے بلاسوچے سمجھے من وعن قبول کر لیا جاتا ہے۔ اسی طرح گزشتہ عشرے کے دوران میڈیا اور ٹیکنالوجی کی غیر معمولی ترقی کی وجہ سے پاکستانی معاشرہ جس تیزی کے ساتھ تبدیل ہو گیا، جماعت اسلامی اسی حساب سے اپنے آپ کو تبدیل نہ کر سکی۔
تیسرا بڑا المیہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے اپنے آپ کو دیگر مذہبی اور مسلکی جماعتوں کے ساتھ نتھی کر لیا ہے جس کی وجہ سے عام لوگوں کی نظروں میں جماعت اسلامی بھی ایک روایتی مذہبی جماعت بنتی جا رہی ہے۔ جماعت اسلامی پہلے دفاع افغانستان کونسل کا حصہ رہی اور جس کی قیادت مولانا سمیع الحق کے پاس تھی۔ پھر ایم ایم اے کا حصہ بنی اور ظاہر ہے کہ وہاں بھی ڈرائیونگ سیٹ پر مولانا فضل الرحمان بیٹھے تھے۔ اسی طرح جماعت اسلامی دفاع پاکستان کونسل کا بھی حصہ ہے جو دراصل اسٹیبلشمنٹ کے مذہبی مہروں کا فورم ہے۔ دوسری طرح وہ ملی یکجہتی کونسل کا بھی حصہ ہے جس میں فرقہ پرست تنظیمیں براجماں ہیں۔ یوں جماعت اسلامی کا اپنا تشخص برقرار نہیں رہا اور نئی نسل اس کو بھی روایتی مذہبی اور فرقہ پرست جماعتوں کی طرح ایک جماعت سمجھنے لگی جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ میڈیا میں بعض اوقات اچھے بھلے صحافی بھی سراج الحق کو مولانا کہہ کر پکار لیتے ہیں۔
قاضی حسین احمد مرحوم کے دور میں جماعت اسلامی کی سوچ کو جس طرح بین الاقوامی بنا دیا گیا، اس کی وجہ سے بھی جماعت اسلامی کو شدید نقصان پہنچا۔ جماعت اسلامی نے افغانستان اور کشمیر کو اپنی سیاست کا محور بنا لیا تھا اور وہاں بری طرح مار پڑ گئی لیکن جماعت اسلامی اب بھی ان ایشوز سے جان نہیں چھڑا سکی۔ آپ جماعت اسلامی کے احتجاجی جلوسوں کا ریکارڈ نکالیں تو پتہ چلے گا کہ پچاس فی صد سے زیادہ بنگلہ دیش، ترکی، امریکہ اور میانمار وغیرہ کے ایشوز پر نکالے گئے لیکن پاکستان کے داخلی اور عوام سے متعلقہ ایشوز پر بہت کم سرگرمیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اس حد سے زیادہ بین الاقوامیت نے بھی جماعت اسلامی کے وابستگان کو عوام سے بڑی حد تک لا تعلق کر دیا ہے۔
عوامل اور بھی بہت سارے ہیں لیکن ماضی قریب میں جماعت اسلامی کو سب سے زیادہ نقصان تحریک انصاف نے پہنچایا ہے۔ یہ جماعت اپنی ساخت میں اور مقصد کے لحا ظ سے جماعت اسلامی سے کوسوں دور ہے لیکن چونکہ اس کی نوک پلک امپائروں نے درست کی، اس لئے اس کی قیادت کو زیادہ تر جماعت اسلامی کے نعرے تھما دئیے گئے۔ اس نے جماعت اسلامی کے کرپشن کے خلاف نعرے کو بھی اپنا لیا۔ چونکہ عمران خان ایک سیلیبرٹی تھے اور ان کے ساتھ وابستگی کی صورت میں انہیں جماعت اسلامی کی طرح پابندیوں کا بھی سامنا نہیں کرنا پڑ رہا تھا (جماعت اسلامی کی صفوں میں کئی سال تک اس بات پر بحث ہوتی رہی کہ تصویر حلال ہے یا حرام ہے جبکہ موسیقی کے بارے میں اب بھی یہ بحث جاری ہے جبکہ تحریک انصاف میں ہر طرح کے حدودو قیود سے آزاد رہ کر بھی انسان انقلاب کا نعرہ لگا سکتا ہے) اس لئے اس نے میدان میں آتے ہی نوجوان نسل میں انقلابی سوچ رکھنے والے جماعت اسلامی کے ووٹروں اور سپورٹروں کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ اس وجہ سے جماعت اسلامی کے اندر خالص سیاسی ذہن رکھنے والے رہنمائوں کی ایک بڑی تعداد بھی پی ٹی آئی میں چلی گئی۔
تاہم جماعت اسلامی کی قیادت نے اپنی عوامی سیاست کے تابوت میں آخری کیل خیبرپختونخوا میں چند وزارتوں کی خاطر پی ٹی آئی سے اتحاد کر کے خود ہی ٹھونک دی۔ اس اتحاد کی خاطر جماعت اسلامی کی قیادت نے جن مصلحتوں سے کام لیا، اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ وہ احتساب کا نعرہ لگاتی رہی لیکن خیبرپختونخوا میں احتساب کے ساتھ بد ترین مذاق پر خاموش رہی۔ آفتاب شیرپائو کے نکالے جانے، پھر منتیں کر کے منانے اور پھر نکالے جانے پر خاموشی کے لئے کسی جماعت کے لئے بڑا بے ضمیر ہونا پڑتا ہے جس کی توقع جماعت اسلامی سے نہیں کی جا سکتی تھی۔ وہ قانون کی بالا دستی کے نعرے لگاتی رہی لیکن اس اتحاد کی خاطر سول نافرمانی کے اعلان کی مذمت بھی نہ کر سکی۔ بینک آف خیبر کے معاملے نے تو جماعت اسلامی کو عوام کی نظروں میں رسوا کرکے رکھ دیا۔
دوسری طرف قومی سطح پر سیاست کا مہار یا تو نوازشریف کے ہاتھ آگیا ہے یا پھر عمران خان کے ہاتھ میں۔ جماعت اسلامی کو تحریک انصاف کا دم چھلا تصور کیا جانے لگا۔ اس کی تازہ مثال پانامہ کیس ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ سپریم کورٹ میں پہلے سراج الحق گئے اور جب لاک ڈائون ناکام ہوا تو امپائروں نے خان صاحب کو سراج الحق کی اقتدا میں سپریم کورٹ بھجوا دیا لیکن کریڈٹ سارا عمران خان لے گیا۔ دوسری طرف خیبرپختونخوا میں بھی اگر کریڈٹ ہو تو وہ پی ٹی آئی لے جا رہی ہے جبکہ ڈس کریڈٹ وہ پی ٹی آئی کے ساتھ شیئر کر رہی ہے۔ مثلاً بلدیاتی اداروں کے قانون کا کریڈٹ ملکی سطح پر تحریک انصاف نے لیا حالانکہ یہ وزارت جماعت اسلامی کے پاس ہے۔
اسی طرح پشاور کی سڑکوں کا کسی حد تک حلیہ درست کرنے کا کریڈٹ بھی جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے بلدیات کے وزیر عنایت اللہ کو جاتا ہے لیکن اس کا کریڈٹ ملک بھر میں الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے تحریک انصاف لے گئی۔ دوسری طرف اگر احتساب کا مذاق اڑایا گیا یا پھر اینٹی کرپشن کا ڈائریکٹر ایک من پسند پولیس افسر کو لگا دیا گیا ہے تو اس میں جماعت اسلامی کا براہ راست کوئی کردار نہیں لیکن بدنامی جماعت اسلامی کے حصے میں بھی آ رہی ہے کیونکہ وہ ان معاملات پر مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔
جماعت اسلامی کے متحرک امیر سراج الحق اگر جماعت اسلامی کی طرف عوام کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں تووہ یہ منزل صرف ذاتی طور پر بے پناہ محنت کر کے ہر گز حاصل نہیں کر سکتے بلکہ اس کے لئے انہیں مذکورہ عوامل کی طرف توجہ دے کر انقلابی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ نہیں تو اگلے انتخابات میں حشر حلقہ این اے 120 سے بدتر ہو گا اور اگر ایم ایم اے بنا کر دوبارہ اپنے آپ کو مولانا فضل الرحمان کی جماعت کا دم چھلا بنایا گیا تو رہی سہی سیاست بھی ختم ہو جائے گی۔ جماعت اسلامی کی موجودہ سیاست میں بدنامی بھی ہے اور ناکامی بھی مقدر ہے۔
آئین نو سے ڈرنا، طرز کہن پہ اڑنا منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں