Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all articles
Browse latest Browse all 6211

امریکا میں قتل عام کیوں؟

$
0
0

امریکی شہر لاس ویگاس میں تین روزہ میلہ جاری تھا۔ لوگ سروں کے ساتھ ایک گلوکار کی آواز سننے میں محو تھے کہ فائرنگ کی آواز نے رخنہ ڈال دیا۔ موسیقی کی جگہ ’’لیٹ جاؤ‘‘ کی آوازیں آنے لگیں اور پھر درد سے کراہنے، رونے اور سسکنے کی۔ حالیہ امریکی تاریخ میں گولیوں سے ہونے والا سب سے بڑا قتل عام جاری تھا۔ ایک شخص نہتے عوام پر اندھادھند فائرنگ کر رہا تھا۔ وہ 59 سے زائد ہلاکتوں اور پانچ سو سے زائد افراد زخمی کرنے کا باعث بنا۔ پولیس بالآخر اس مقام تک پہنچ گئی جہاں سے فائرنگ ہو رہی تھی اور وہاں ایک 64 سالہ شخص کو پایا جس کی روح پرواز کر چکی تھی۔ وہ سٹیفن پیڈک تھا جو بظاہر جرائم میں ملوث نہیں رہا۔

مشرقی و مغربی دنیا میں دہشت گردی میں ملوث گروہ دولت اسلامیہ (داعش) نے کہا کہ سٹیفن اس کا سپاہی تھا لیکن تاحال اس کے اس تنظیم سے روابط کا نہ کوئی ثبوت سامنے آیا ہے اور نہ ہی دولت اسلامیہ نے اپنے تعلق کا کوئی ثبوت پیش کیا ہے۔ سٹیفن پیڈک جس ہوٹل کے کمرے میں مقیم تھا وہاں سے متعدد ہتھیار اور اسلحہ برآمد ہوا۔ سٹیفن پیڈک اسے وہاں مختلف وقفوں سے جمع کرتا رہا۔ اس کی زندگی کے بکھرے ہوئے واقعات کو جوڑ کر یہ سمجھنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اس نے اتنا گھناؤنا عمل کیوں کیا۔ وہ بڑا جوا کھیلتا تھا اور مالدار تھا۔ لیکن ایک اطلاع کے مطابق وہ جوا مسلسل ہار رہا تھا۔ اسے سفر کرنے کا شوق بھی تھا وہ رئیل سٹیٹ کا کاروبار بھی کرتا رہا۔

سٹیفن پیڈک اور اس کے تین بھائیوں کی پرورش اس کی والدہ نے کی کیونکہ 1961ء میں بینکوں میں متعدد ڈاکے ڈالنے کے بعد اسے 20 سال قید کی سزا ہوئی تھی۔ اس کا باپ 1968ء میں جیل سے فرار میں کامیاب ہو گیا اور اس کے بعد استعمال شدہ کاروں کا بیوپاری بن گیا۔ سٹیفن پیڈک کے بھائی کے مطابق اس کا بھائی بندوق چلانے کا شوق ہرگز نہیں رکھتا تھا۔ دولت اسلامیہ کے نظریات، تنظیم اور ماضی میں مغربی سرزمین پر ہونے والی کارروائیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ تحقیق جاری ہے کہ آیا اس کا حملے سے کوئی تعلق ہے بھی یا نہیں۔ مغرب میں بعض لوگوں نے دولت اسلامیہ کے نظریات سے متاثر ہو کر بھی حملے کیے ہیں یا کم از کم ان کی منصوبہ بندی کی ہے۔ ان میں سے کچھ کا اس دہشت پسند تنظیم سے براہ راست تعلق بھی نہیں تھا۔ وہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے انتہاپسند خیالات سے متاثر ہوئے اور حملوں کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو گئے۔ 

دوسرے جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ چند ماہ میں دولت اسلامیہ نے کم از کم دو بار حملوں کے حوالے سے جھوٹے دعوے کیے۔ اس میں منیلا کے ایک جوئے خانے پر ہونے والا حملہ اور پیرس کے چارلس ڈیگال ہوائی اڈے پر بم حملے کا منصوبہ شامل ہے۔ دولت اسلامیہ نے اپنے ایک سوشل میڈیا اکاؤنٹ کے ذریعے ذمہ داری لینے کے بعد دوسری بار دعویٰ کیا کہ سٹیفن پیڈک ان کے نظریات سے متاثر ہو کر(انتہاپسند) مسلمان ہو گیا تھا۔ ایک ہتھیار فروش کے بیان کے مطابق اس نے اس کی دکان سے ہتھیار خریدے اور یہ خریداری قانون کے مطابق تھی۔ اسے اس خریداری میں دشواری کا سامنا اس لیے بھی نہیں کرنا پڑا کیونکہ ماضی میں وہ کسی قابل ذکر جرم میں ملوث نہیں رہا تھا۔

امریکا میں شہریوں کے ہتھیار رکھنے کی قانونی اجازت پر طویل عرصے سے بحث جاری ہے۔ ایک حلقے کا کہنا ہے کہ شہریوں کو ہتھیاروں کی فروخت پر سختی کی جائے تاکہ ان کے استعمال میں کمی ہو اور یوں ہلاکتیں کم ہوں۔ دوسرا حلقہ اسے بالخصوص انفرادی دفاع کے لیے ضروری خیال کرتا ہے اور اس کی نرم شرائط پر دستیابی کا حامی ہے۔ ان میں ’’گن کنٹرول‘‘ اور ’’گن رائٹ‘‘ حلقوں کی صورت میں بھی تخصیص کی جاتی ہے۔ دنیا کے کسی ترقی یافتہ ملک میں بندوقوں کے ذریعے اتنے پُرتشدد واقعات نہیں ہوتے جتنے امریکا میں ہوتے ہیں۔ امریکیوں کے پاس 26 کروڑ 50 لاکھ بندوقیں ہیں۔ یعنی اوسطاً ایک بالغ کے لیے ایک سے زیادہ گنز امریکا میں ہیں۔ 

اگر اس حوالے سے ماضی میں امریکا میں ہونے والے واقعات پر نظر دوڑائی جائے تو یہ حیران کن حد تک زیادہ ہے۔ امریکا میں کینیڈا کی نسبت آتشیں اسلحے سے ہونے والی ہلاکتوں کا تناسب چھ گنا اور جرمنی سے 16 گنا زیادہ ہے۔ 14 دسمبر 2012ء کو دینڈے ہُک سکول میں آتشیں اسلحے سے حملہ آور نے 27 افراد کو مار ڈالا تھا، حملہ آور کی عمر محض 20 سال تھی اور مرنے والوں کی اکثریت بچے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق تب سے لے کر اب تک امریکا میں آتشیں اسلحے سے قتل عام کے 15 سو سے زائد واقعات ہو چکے ہیں۔ یہ ایک انتہائی افسوس ناک واقعہ ہے۔ حملہ آور کے بظاہر سفید فام ہونے کی وجہ سے عام طور پر یہ نہیں کہا جا رہا کہ اس میں کوئی مسلمان ملوث ہے وگرنہ شاید امریکی مسلمان مزید زیر عتاب آ جاتے۔

امریکا میں مسلمانوں کے خلاف تعصب ان دنوں عروج پر ہے اور کسی مسلمان کی طرف سے کیا جانے والا حملہ اس کی شدت میں اضافہ کر دیتا ہے۔ اگر یہ حملہ کسی نفسیاتی حالت کا نتیجہ ہے تو بھی غورو فکر کا مقام ہے کیونکہ نفسیاتی امراض محض داخلی معاملہ نہیں، خارجی عوامل بھی اس کے ذمہ دار ہوتے ہیں اور عموماً داخلی سے کہیں بڑھ کر ۔ امریکی معاشرے میں قتل عام کے اس قدر زیادہ واقعات عندیہ دیتے ہیں کہ اس معاشرے میں کچھ ایسا ضرور ہے جو غلط ہے۔

رضوان عطا


 


Viewing all articles
Browse latest Browse all 6211

Trending Articles