کیوبا میں کامیابی کے بعد چے نے لاطینی امریکا کے ملک بولیویا کا رخ کیا تاکہ وہاں بھی گوریلا کارروائیوں کی مدد سے انقلاب لایا جا سکے۔ اس دوران وہ ڈائریاں لکھتا رہا، جو شائع ہو چکی ہیں۔ اس میں 7 نومبر1967 سے 7ا کتوبر 1967 تک کے واقعات درج ہیں جب یارو کی گھاٹی میں معرکہ ہوا اور چے پکڑا گیا۔ چے کے ساتھی آنجہانی فیڈل کاسترو نے ڈائریوں کی اشاعت کے موقع پر چے کی زندگی کے اس مشکل دور پر لکھا ہے جو قارئین کی نذر ہے.
بولیویا کی جنگ میں چے نے انتہا لگن، جرأت، پامردی اور مثالی کردار کا مظاہرہ کیا۔ یوں سمجھئے کہ اس مشن کی اہمیت کے احساس سے جو اس نے اپنے ذمہ لیا تھا وہ ہر وقت احساس ذمہ داری سے سرشار رہا۔ جب بھی گوریلا جانبازوں کو اس نے بے پروا پایا۔ اس نے ان کا محاسبہ کیا اور اس واقعہ کو ڈائری میں درج کیا۔ اسے ناقابل یقین حد تک دشواریوں کا سامنا رہا۔ گوریلوں کا ایک گروہ جس میں بہت کام کے آدمی تھے۔ دشوار راستوں میں رسل و رسائل کا سلسلہ منقطع ہونے کی وجہ سے دستے سے بچھڑ گیا۔ اس گروہ میں زخمی بھی تھے، بیمار بھی۔ چے کوان کی تلاش میں کئی مہینے لگے۔ اس دوران میں اس کا دمہ جسے ایک معمولی دوائی سے آرام آجایا کرتا بہت شدید صورت اختیار کر گیا۔
گوریلوں کی دوائیوں کا ذخیرہ دشمن کے ہاتھ لگا اس لئے یہ بیماری چے کے لئے ایک مستقل عذاب بن گئی۔ اگست میں دستے سے بچھڑے ہوئے گروہ کا دشمن نے صفایا کر دیا۔ ان حادثات نے حالات کوبہت حد تک اثر پذیر کیا۔ لیکن اس نے اپنی آہنی قوت ارادی سے اپنے جسمانی عارضے پر قابو پایا اور اس کی ہمت میں کوئی کمی آئی نہ عمل میں! کسانوں کے ساتھ چے نے رابطہ رکھا۔ ان کے کردار میں بے اعتمادی اور شبہ کے عناصر سے اسے کوئی حیرانی نہیں ہوئی کیونکہ وہ ان کی افتاد طبع سے واقف تھا۔ کئی موقعوں پر ان سے میل جول نے اس پر یہ بات واضح کر دی تھی کہ مستقل مزاجی صبر اور لگاتا ر محنت سے ان کے دل جیتے جا سکتے ہیں۔ اسے انجام کار اپنی کامیابی میں کبھی شبہ نہیں ہوا۔
اگر واقعات کے تسلسل کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ اپنی موت سے چند ہفتے قبل ستمبر میں اس کے اعتماد والے ساتھیوں کی تعداد بہت ہی کم رہ گئی تھی۔ اس وقت بھی گوریلا دستے کی نشوونما میں کسی طرح کی کمی نہیں آئی اور بولیویا کے گوریلے مثلاً انٹی اور کوکو پیرؔیڈو قیادت کے شاندار جوہر دکھانے لگے تھے۔ ہیگورا کے مقام پر دشمن کے شب خون نے ان کے لئے انتہائی مشکلات پیدا کیں۔ چے کے گوریلا دستے کے خلاف دشمن کی یہ پہلی اور آخری کامیابی تھی۔ چے کا دستہ دن میں کسانوں کے ایک ایسے علاقے کی طرف بڑھ رہا تھا جہاں سیاسی بیداری مقابلتاً زیادہ تھی (یہ مقصد ڈائری میں تحریر نہیں لیکن پسماند گان کو اس کا علم تھا) دشمن نے ہراول گوریلا دستے کا صفایا کر دیا اور بہت سے دوسرے سپاہی بھی زخمی ہوئے۔
دن کی روشنی میں اسی راستے پر گامزن رہتا جس پر وہ کئی روز سے چل رہے تھے اور لامحالہ اس علاقے کے لوگوں سے واسطہ رکھنا پڑتا تھا۔ بلاشبہ خطرے کی بات تھی۔ یہ امریقینی تھا کہ سرکاری فوج کسی وقت بھی ان کاراستہ روک لے گی۔ اس احساس کے باوجود چے نے یہ خطرہ مول لیا کیونکہ وہ اس ڈاکٹر کی مدد کرنا چاہتا تھا جس کی حالت غیر تھی۔ جھڑپ سے ایک دن پہلے وہ لکھتا ہے۔ ’’ہم پوجو پہنچے۔ وہاں ایسے لوگ موجود تھے جنہوں نے ہمیں ایک دن پہلے نشیب میں دیکھا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ہمارے بارے میں ’’ریڈیو بمبا‘‘ (کیوبا میں زبانی خبریں پہنچانے کو ریڈیو بمبا کہا جاتا ہے) کے ذریعے اطلاعات پہلے ہی پہنچ چکی تھیں۔ خچروں کے ساتھ یہ سفر خطر ناک ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ ڈاکٹر اچھے سے راستے سفر کرے کیونکہ وہ بہت کمزور ہو چکا ہے۔‘‘ اگلے روز کی ڈائری میں لکھا ہے۔ ’’13 ہراول دستے نے جاگوئی پہنچنے کی کوشش کی تا کہ وہاں پہنچ کر ڈاکٹر اور خچروں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے۔‘‘
اس سے ظاہر ہے کہ چے بیمار ڈاکٹر کے تحفظ کے بعد ہی اس خطر ناک راستے کو چھوڑنے اور ضروری حفاظتی اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتا تھا لیکن اسی دو پہر ہراول دستے کے جاگوئی پہنچنے سے پیشتر ہی دشمن نے گھات سے حملہ کیا جس نے گوریلا دستے کو ناقابل برداشت مشکلات میں ڈال دیا۔ چند دن بعد کیوبر اڈاڈبل بورو کے مقام پر گھرے ہوئے اس نے آخری جنگ لڑی۔ ان مٹھی بھر انقلابیوں کی ہمت اور قوت برداشت حیرت انگیز ہے۔ اکیلے دشمنوں میں گھرے ہوئے لڑنا شجاعت کی لاثانی مثال ہے۔
تاریخ میں اس سے قبل اتنے کم لوگوں نے اتنا بڑا کارنامہ سرانجا م نہیں دیا۔ یہ اٹل یقین کہ لا طینی امریکہ کے عوام کی عظیم انقلابی اہلیت اور قوت کو بیدار کیا جا سکتا ہے اور وہ خود اعتمادی اور عزم جس سے وہ اس مشن میں مگن رہے۔ ان انسانوں کی عظمت کے صحیح پیمانے ہیں! ایک روز چے نے بولیویا کے گوریلا جانبازوں سے کہا ’’اس قسم کی جنگ ہمیں انقلابی بننے کے مواقع بہم پہنچاتی ہے جو انسانیت کااعلیٰ ترین مقام ہے۔ یہ ہمیں مردانگی کی سند عطا کرتی ہے جو لوگ ان دو مقامات میں سے کسی ایک پر پہنچنے کے اہل نہیں انہیں چاہیے کہ اعتراف کرتے ہوئے ہم سے علیحدہ ہو جائیں۔