بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت (آئی او ایم) کی ایک رپورٹ کے مطابق سن 2000 سے اب تک تینتیس ہزار سے زائد تارکین وطن یورپ پہنچنے کی کوشش میں بحیرہ روم کی لہروں کی نذر ہوئے۔ بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ گزشتہ سترہ برسوں کے دوران پناہ کی تلاش میں یورپ کا رُخ کرنے والے تینتیس ہزار سے زائد انسان بحیرہ روم میں ڈوب کر ہلاک یا گم شدہ ہو گئے۔ آئی او ایم کے ترجمان نے جنیوا میں نیوز بریفنگ کے دوران تفصیلات بتاتے ہوئے کہا، ’’یہ اعداد و شمار رواں برس جون کے آخر تک کے ہیں اور یہ اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ بحیرہ روم کی یورپی سرحد دنیا کی سب سے خطرناک اور جان لیوا سرحد ہے۔‘‘
یہ رپورٹ یورپین یونیورسٹی انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ پروفیسر فیلپ فارگ نے تیار کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بحیرہ روم میں ’مختصر اور کم خطرناک راستوں کو بند کرنے کے نتیجے میں (تارکین وطن) طویل اور خطرناک سمندری راستے اختیار کر سکتے ہیں جس کے نتیجے میں بحیرہ روم میں ہلاکتوں میں اضافہ ہونے کا خد شہ ہے‘۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران ریکارڈ تعداد میں ایک ملین سے بھی زائد انسان بحیرہ روم کے خطرناک سمندری راستوں ہی کے ذریعے یورپ پہنچے تھے۔ زیادہ تر تارکین وطن تُرک ساحلوں سے بحیرہ ایجیئن کے سمندری راستوں کے ذریعے یونانی جزیروں پر پہنچے تھے۔ ترکی اور یورپی یونین کے مابین طے پانے والے معاہدے کے بعد یورپ پہنچنے کا یہ راستہ عملی طور پر بند ہو گیا تھا جس کے بعد لیبیا کے ساحلوں سے اٹلی پہنچنے کے رجحان میں اضافہ نوٹ کیا گیا تھا۔
اس برس بھی ایک لاکھ اکسٹھ ہزار سے زائد مہاجرین اور تارکین وطن بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے یورپ پہنچے ہیں جن میں سے 75 فیصد اٹلی جب کہ باقی پچیس فیصد نے یونان، اسپین اور قبرص کا رخ کیا۔ آئی او ایم کے مطابق اس برس بھی تین ہزار سے زائد انسان بحیرہ روم میں ڈوب کر ہلاک یا گم شدہ ہو گئے۔ پروفیسر فیلپ فراگ کا تاہم کہنا ہے کہ بحیرہ روم میں ہلاک ہونے والوں کی حقیقی تعداد ممکنہ طور پر رپورٹ میں جمع کردہ اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔