جنوبی کیلی فورنیا (امریکا) میں لگنے والی آگ کی وجہ سے ہزاروں افراد کو اپنے گھر سے نکال کر دوسرے مقامات پر منتقل کرنا پڑا۔ اس سے بھی زیادہ افراد رواں سال کے اوائل میں ٹیکساس اور فلوریڈا میں آنے والے سمندری طوفانوں سے قبل اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے، جس سے شاہراہوں پر ٹریفک پھنسی رہی اور دوسرے علاقوں کے ہوٹل بھر گئے۔ سوشل میڈیا پر اس بارے میں ایک فضا سے لی گئی ویڈیو جاری ہوئی جس میں لوگوں کو فلوریڈا سے جان بچا کر جاتے ہوئے دکھایا گیا اور ساتھ ہی فکر مند کرنے والا سوال پوچھا گیا: اگر ہمسایہ امریکی ریاستیں کوئی دوسرا ملک ہوتیں اور وہ مہاجرین کو نہ آنے دیتیں تو کیا ہوتا؟
ماہرین کے مطابق رواں صدی کے نصف تک دنیا میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلی سے بے گھر ہونے والوں کی تعداد 15 سے 30 کروڑ ہو جائے گی۔ اگر بالفرض ان تمام افراد کو کسی ملک کی آبادی تصور کر لیا جائے تو آبادی کے لحاظ سے یہ دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہو گا جس کی آبادی ریاست ہائے متحدہ کے لگ بھگ ہو گی۔ اس کے باوجود کسی ملک نے یا عالمی برادری نے ’’موسمیاتی مہاجرین‘‘ کے اس نئے گروہ کی مدد کے لیے پوری طرح تیاری نہیں کی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں گرمی کی لہروں میں شدت کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ موسمیاتی تبدیلی سے مہاجر ہونے والوں یا نقل مکانی کرنے والوں کے لیے ملکی، علاقائی اور عالمی سطح پر بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
دنیا میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے لوگ پہلے ہی نقل مکانی کرنے یا مہاجر بننے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ میکسیکو میں جنگلات میں ہونے والی کمی سے ہر سال سات لاکھ افراد کو دوسرے مقامات پر منتقل ہونے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔ جنوبی بحرالکاہل میں ٹووالو (چند جزائرپر مشتمل چھوٹا ساملک) اور کیربئین میں پورٹوریکو تک موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں آنے والے سمندری طوفانوں نے ہزاروں افراد کو بے گھر کر دیا۔ ماہرین کا اتفاق ہے کہ شام میں خانہ جنگی کو تیز کرنے میں وہاں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے آنے والی طویل مدت قحط سالی کا کردار ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق 2008ء سے 2015ء تک سالانہ اوسطاً دو کروڑ 64 لاکھ افراد موسمیاتی یا ماحولیاتی آفات سے بے گھر ہوئے۔
موسمیات سے متعلق سائنسی تحقیقات سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ رجحان برقرار رہے گا۔ درجہ حرارت میں ایک سینٹی گریڈ اضافے کا مطلب ہے کہ فضا میں نمی برقرار رکھنے کی صلاحیت میں سات فیصد اضافہ، اور شدید طوفان۔ 2100ء تک سطح سمندر میں تین فٹ تک اضافہ ہو سکتا ہے جس کی وجہ سے ساحلی علاقے اور آباد جزائر زیرآب آ جائیں گے۔ بحرالکاہل میں واقع جزائر کی صورت حال سب سے زیادہ تشویش ناک ہے۔ اسی طرح امریکا سمیت دنیا کے 410 شہر خطرے میں ہیں۔ ان میں ایمسٹرڈیم، ہیمبرگ، لزبن اور ممبئی شامل ہیں۔ درجہ حرارت میں اضافے سے مغربی ایشیا کے کچھ علاقوں میں زندگی گزارنا دشوار ہو جائے گا۔
ستمبر میں جس دن فلوریڈا میں سمندر ی طوفان ’’ارما‘‘ آیا اسی دن دور دراز واقع ایک اور خطے میں بھاری بارشوں نے ایک تہائی بنگلہ دیش اور انڈیا کے مشرقی حصوں کو ڈبو کر رکھ دیا۔ اس کے نتیجے میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے یوں تو ہر خطہ کسی نہ کسی حد تک متاثر ہو گا لیکن اس کا سب سے زیادہ اثر ترقی پذیر ممالک کے غریب لوگوں پر پڑے گا۔ یہاں موسم کی شدت اور وبائیں بہت نقصان کریں گی۔ کم وسائل اور خوراک کی کمی کا شکار افراد زیادہ متاثر ہوں گے۔ حکومتوں اور تنظیموں جیسا کہ اقوام متحدہ کو قوانین بدلنے کی ضرورت ہے تاکہ موسمیاتی تبدیلوں کے نتیجے میں ہجرت کرنے والوں کے لیے گنجائش پیدا کی جا سکے۔ ان متاثرین کے لیے انصاف کے تقاضے پورے کرنے اور موسمیاتی تبدیلی کو اخلاقی اور سماجی موضوع بنانے کی ضرورت ہے۔
موسمیاتی تبدیلی میں سب سے زیادہ کردار امیر ممالک کی طرف سے پھیلائی گئی آلودگی کا ہے لیکن اس کے زیادہ تباہ کن نتائج غریب ممالک کو بھگتنا پڑیں گے۔ کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ جو ممالک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں انہیں مہاجرین یا نقل مکانی کرنے والوں کی بھی زیادہ ذمہ داری اٹھانی چاہیے۔ موسمیاتی تبدیلی پر ہونے والے ’’پیرس معاہدہ‘‘ میں ’’موسمیاتی مہاجرین‘‘ کا ذکر نہیں کیا گیا۔ تاہم کچھ تنظیموں اور حکومتوں کی جانب سے کچھ پیش رفت ضرور ہوئی ہے۔ موسمیاتی مہاجرین کی تعریف و توضیح کرنا آسان نہیں اور یہ نئی پالیسیاں بنانے کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ مہاجرین کے بارے میں مختلف ممالک کی پالیسیاں مختلف رہی ہیں۔ کہیں انہیں خوش آمدید کہا گیا تو کہیں انہیں قید خانوں میں رکھا گیا۔ کچھ ممالک جوانوں اور کام کرنے کے قابل افراد کو تو داخلے کی اجازت آسانی سے دیتے ہیں لیکن عمر رسیدہ اورناتواں لوگوں کو نہیں۔