ایسی رپورٹس سامنے آئی ہیں کہ شمالی کوریا کو چین اور روس کے بحری جہازوں کے ذریعے تیل منتقل کیا گیا ہے۔ چین نے تیل منتقلی کی تردید کی ہے۔ روس کی جانب سے کوئی واضح ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ دو سینیئر مغربی سکیورٹی ذرائع نے واضح کیا ہے کہ شمالی کوریا کو روس کے بحری جہازوں سے کھلے سمندر میں تیل منتقل کیا گیا ہے۔ ان ذرائع نے یہ بھی کہا کہ روس کی جانب سے ایسا کرنا اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے۔ سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا کے لیے تیل کا حصول حکومتی عملداری قائم رکھنے کے لیے انتہائی اہم ہے۔
تیل مال بردار بحری جہاز سے شمالی کوریائی ٹینکروں پر منتقل کیا گیا تھا۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ترسیل کے عمل میں امکاناً روس کے نجی کاروباری حلقوں کے شامل ہونے کا امکان ہے۔ اس مناسبت سے نیوز ایجنسی روئٹرز نے رپورٹ کیا تھا کہ شمالی کوریائی مال بردار بحری جہاز روسی بندرگاہوں سے تواتر کے ساتھ آ جا رہے ہیں۔ ان ذرائع نے مزید تفصیل بتانے سے گریز کیا ہے یہ تیل کی منتقلی بحر الکاہل میں ہوئی ہے۔ روسی تیل بردار بحری جہاز مشرقی روسی بندرگاہی علاقوں سے روانہ ہوئے تھے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان بحری جہازوں کی آمد و رفت انٹیلیجنس سیٹلائٹ پر بھی ریکارڈ کی گئی ہے۔
تیل کی منتقلی کے حوالے سے معلومات مغربی سکیورٹی ذرائع نے نام مخفی رکھتے ہوئے نیوز ایجنسی روئٹر کو بتائی ہیں۔ ان ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ بظاہر ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ تیل کی منتقلی میں روسی حکومت ملوث ہے۔ روس کی جانب سے اس رپورٹ پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ دوسری جانب چین نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اُس بیان کی تردید کر دی، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ اس بات پر خوش نہیں ہیں کہ چین نے شمالی کوریا کو تیل کی فراہمی میں چھوٹ دے رکھی ہے۔ چین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ٹرمپ کا یہ الزام حقیقت پر مبنی نہیں۔ ایک جنوبی کوریائی اخبار Chosun Ilbo نے ایک امریکی انٹیلیجنس سیٹلائٹ سے اتاری گئی ایک تصویر شائع کی تھی اور لکھا تھا کہ ایک چینی بحری جہاز سے شمالی کوریائی ٹینکر پر تیل کی منتقلی دیکھی جا سکتی ہے۔ امریکی حکام نے اس جنوبی کوریائی اخباری رپورٹ کی تصدیق نہیں کی۔