↧
28 May “Youm-e-Takbeer” – Day of Revival and Pride of the Ummah by Dr. Abdul Qadeer Khan
↧
پاکستان میڈیا امریکہ کے مقابلے میں زیادہ آزاد ہے........Ansar Abbasi
↧
↧
جیو، جنگ گروپ فوج اور آئی ایس آئی سے معافی کے طلبگار........
↧
Pakistan and India Relations After Narendra Modi
↧
How Can We Increase Tax Collection In Pakistan ...by Dr. Ikramul Haq
↧
↧
Takbeer Day and Pakistan and India Relations by Ibtisam Elahi Zaheer
↧
Geo News and Jang Group Open Letter To The Government And PEMRA
↧
Narendra Modi charge sheet against Pakistan
↧
دو گز زمین سے بھی محرومی........
چین میں 6 افراد نے اس لئے خودکشی کر لی ہے کہ اپنی لاشوں کو نذر آتش ہونے سے بچا سکیں۔ چین میں مذھباً نہیں، روایتی طور پر لوگ اپنے مُردوں کو تابوت میں بند کرنے کے بعددفناتے ہیں اور قبر کے اوپر چھوٹا سا ڈھانچہ اور ممکن ہو تو مزار بھی بناتے ہیں۔ روایت پسند قوم ہونے کی وجہ سے ان لوگوں کو یہ قبول نہیں کہ مرنے کے بعد انہیں قبر نہیں ملے گی۔ دوسری طرف ملک میں قبروں کے لئے جگہ کم پڑ رہی ہے۔ اس لئے حکومت نے یہ قانون بنایا ہے کہ آئندہ سے مرنے والوں کی لاشیں جلائی جائیں گی، انہیں دفن نہیں کیا جائے گا۔ جس علاقے کے چھ لوگوں نے خودکشی کی ہے، وہاں اس قانون پر یکم جون سے عمل ہونا ہے۔ چنانچہ خودکشی کرنے والوں کو قبر مل جائے گی۔
بہت ہی نرالی بات ہے کہ روایت کیلئے جان دے دی جائے۔ مرنے کے بعد کیا فرق پڑتا ہے کہ لاش جلائی جاتی ہے یا دفن کی جاتی ہے۔ یہ بات لواحقین کے لئے اہم ہو سکتی ہے، مرنے والے کے لئے نہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ کسی شخص نے عذاب قبر کا احوال سنا تواتنا خوفزدہ ہوا کہ وصیت کر دی کہ مرنے کے بعد اُسے نذر آتش کر دیا جائے۔ اس کا خیال تھا کہ لاش نہیں ہوگی تو عذاب سے بچ جاؤنگا۔ روایت ہے کہ خدا کو اس کاخوف پسند آیا اور اسے بخش دیا۔ اگرچہ عذاب قبر ایسی کیفیت ہے جس سے ہر مرنے والے کی روح کو دو چار ہونا پڑے گا، چاہے لاش ہو یا نہ ہو۔ چاہے کوئی جل کر ذرّہ ذرّہ ہو جائے، چاہے کسی کو مچھلیاں کھا جائیں، جسے عذاب ہونا ہے، ہو کر رہے گا۔ چین میں جگہ کی کمی بہت سے لوگوں کے لئے حیران کن ہوگی کیونکہ اگر چین کی آبادی بہت زیادہ ہے تو رقبہ بھی کم نہیں۔ اس کی آبادی ایک ارب35کروڑ ہے اور رقبہ95لاکھ مربع کلو میٹر یعنی37لاکھ مربع میل ہے۔ بھارت کی آبادی چین سے کچھ ہی کم ہے یعنی ایک ارب22کروڑ جبکہ رقبہ چین کے تیسرے حصے کے برابر ہے یعنی تقریباً33لاکھ مربع کلو میٹر (ساڑھے بارہ لاکھ مربع میل ) گویا اس وقت چین کی جتنی آبادی ہے، وہ بڑھ کر تین گنی ہو جائے تو وہ بھارت کے برابر ہو گا۔ پھر جگہ کی کمی کے کیا معنے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ چین کا صرف مشرقی علاقہ جو ایک تہائی سے کچھ زیادہ ہے، کم و بیش ساری آبادی کو سموئے ہوئے ہے۔ باقی 60فیصد رقبے میں برائے نام آبادی ہے۔ان دونوں علاقوں کو ایک فرضی لکیر ’’ہو‘‘لائن الگ کرتی ہے اور ان دونوں علاقوں کی آبادی میں فرق کتنا زیادہ ہے، ان کا اندازہ یوں لگائیے کہ مشرقی چین میں ملک کی94 فیصد آبادی ہے اور باقی 60فیصد رقبے میں صرف6فیصد لوگ رہتے ہیں۔ اس زیادہ آباد رقبے میں گھنے جنگل بھی ہیں، بے شمار دریا اور جھیلیں اور ناقابل رہائش اونچے برف پوش پہاڑی سلسلے بھی ہیں۔ چنانچہ دیکھا جائے تو یہ چین بھارت سے کہیں زیادہ گنجان آباد ملک ہے۔ ساتھ ہی اس علاقے میں بڑے بڑے صنعتی کمپلیکس اور ترقی کی علامت دوسری عمارات بھی بن رہی ہیں۔جن سے آبادی کی گنجائش اور کم ہو رہی ہے۔ چین کی کم و بیش ساری زراعت بھی اسی علاقے میں ہے۔ اس لئے اگر آج قبروں کے لئے جگہ کم یاب ہے تو آنے والے دنوں میں نایاب ہو جائے گی چنانچہ لاشوں کو نذر آتش کرنا چین کی مجبوری بنتا جا رہا ہے۔ دوسری طرف روایت پسندی ہے۔ اور روایت پسندی اور مجبوری کی اس جنگ میں مجبوری ہی جیتے گی کہ ریاستی طاقت بھی مجبوری کے ساتھ ہے۔ اس سے پہلے ریاستی طاقت ایک اور روایت کا خاتمہ بھی کر چکی ہے۔ یعنی بچوں کی تعداد کو پوری دنیا سے زیادہ محدود کر چکی ہے۔ ترقی پذیر ملکوں میں ایک گھرانے میں چار پانچ سے لے کر سات آٹھ تک بچے بھی ہو سکتے ہیں لیکن ترقی یافتہ ملکوں میں یہ گنتی زیادہ تر دو ہوتی ہے، اس سے زیادہ ہوئی تو تین اور حد چار۔ لیکن چین نے یہ قانون نافذ کر دیا کہ ایک گھرانہ صرف ایک بچہ پیدا کر سکتا ہے۔
ایک سے زیادہ بچے ہوں گے تو سخت جرمانہ ہوگا۔ بسا اوقات یہ جرمانہ خاندان کی آمدنی سے بھی زیادہ ہو جاتا ہے چنانچہ ایسے واقعات کثرت سے ہو رہے ہیں کہ دوسرا بچہ ہوگیا تو ماں باپ نے اسے مار ڈالا۔ اس پالیسی کی وجہ سے اسقاط حمل کی شرح بھی بڑھی جن میں بعض اوقات ماں بھی مر جاتی ہے۔ پیدا ہونے والی زیادہ تر بچیاں مار دی جاتی ہیں کیونکہ لڑکا زیادہ مطلوب ہے، اور اگلی بار لڑکا ہوا تو ٹھیک، لڑکی ہوئی تو پھر مار دی جائیگی ۔ اندازے کے مطابق اس پالیسی کے تحت تیس برسوں میں20 کروڑ پیدائشیں روکی گئیں۔ یعنی یہ پالیسی نہ ہوتی تو چین کی آبادی اس وقت ڈیڑھ ارب سے بھی زیادہ ہوتی۔(اسقاط کے واقعات اس میں شامل نہیں) اس پابندی کا ایک اور نتیجہ خاندانی نظام کے سکڑنے کی شکل میں یوں نکلا ہے کہ ’’رشتے‘‘ہی غائب ہوگئے ہیں۔ ذرا غور کیجئے کہ ایک گھر ایک بچہ کے سلسلے کی اگلی نسل کے رشتے کیا ہوں گے؟ یعنی اس ایک بچے کا آگے جو بچہ ہوگا، اس کی خالہ ہوگی نہ خالو، ماموں ہوگا نہ ممانی، پھوپھی ہوگی نہ پھوپھا اور جب یہ نہیں ہوں گے تو کزن بھی نہیں ہوں گے۔ نہ کوئی خالہ زاد، نہ کوئی چچا زاد۔ اکیلے گھرانے کا اکیلا بچہ۔
فوری نتیجہ اس قانون کا یہ نکلا ہے کہ چین میں نوجوانوں کی تعداد کم اور بوڑھوں کی زیادہ ہوتی جا رہی ہے۔ اس لئے کہ بڑے بوڑھے تو اس پابندی سے پہلے پیدا ہوئے۔ شرح اموات کم ہے چنانچہ یہ بوڑھے لوگ بڑی تعداد میں ہیں جبکہ اگلی پیڑھی ہی میں دو افراد مل کر صرف ایک بچے کی ’’ری پلیسمنٹ‘‘ فراہم کریں گے۔
ایک اور دردناک نتیجہ ان بڑے بوڑھوں کی کسمپرسی کی شکل میں نکل رہا ہے۔ بوڑھے ماں باپ کی دیکھ بھال کی ذمہ داری صرف ایک لڑکے (یا لڑکی) پر ہوگی۔ وہ روزگار کمائے گا یا ان کی دیکھ بھال کرے گا۔ چنانچہ چین میں (اور کسی حد تک جاپان، کوریا میں بھی ) بوڑھے لوگ یا تو گھٹ گھٹ کر مر رہے ہیں یا خودکشیاں کر رہے ہیں۔
اس صورتحال کی ذمہ داری کس پر ہے؟ چین اگر آبادی میں اضافہ نہیں روکتا تو بھی مشکل میں پڑتا ہے اور اگر روک رہا ہے تو بھی مشکل میں ہے۔ نوجوانوں کی تعداد میں کمی کی وجہ سے چین میں ورک فورس کا بحران بھی پیدا ہو رہا ہے۔ گزشتہ برس کے آخر میں کچھ گھرانوں کو دو بچے پیدا کرنے کی مشروط اجازت دی گئی ہے۔ آنے والے برسوں میں اس کے سماجی اور اقتصادی نقصانات زیادہ سنگین ہونے کا خدشہ ہے۔
یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ تقریباً60فیصد بے آباد رقبے کو آباد کیوں نہیں کیا جاتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بے آباد رقبے اتنی ہی آبادی سنبھال سکتے ہیں جتنی اس وقت وہاں ہے۔ کم آباد رقبے میں سنکیانگ، تبّت اور اندرونی منگولیا کے صوبے (نیم بلکہ نام نہاد خود مختار ریاستیں) زیادہ قابل ذکر ہیں۔ تبّت کا رقبہ پونے پانچ لاکھ مربع میل ہے یعنی پاکستان سے کوئی ڈیڑھ گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ لیکن آبادی محض تیس لاکھ ۔وجہ وہی کہ یہاں دور دور تک برفانی صحرا پھیلے ہوئے ہیں۔ تقریباً یہی حال سنکیانگ کا ہے جس کا رقبہ پاکستان سے دوگنے سے بھی زیادہ ہے اور آبادی محض دو کروڑ۔ یہاں کچھ علاقہ قابل رہائش ہے اس لئے چینی آبادی نقل مکانی کرکے یہاں آباد ہو رہی ہے جس کی وجہ سے مقامی لوگوں (یغور مسلمانوں) کو خدشہ ہوگیا ہے کہ وہ اپنے ہی علاقے میں اقلّیت نہ بن جائیں۔ حالیہ دہشت گردی کی لہر کے بعد سے یہ نقل مکانی کم ہو گئی ہے۔ تیسرا بڑا علاقہ اندرونی منگولیا ہے۔ یہ تینوں وسیع و عریض علاقے چین کا حصہ نہیں تھے، انہیں بعد میں ضم کیا گیا۔ سنکیانگ عرصے تک مشرقی ترکستان کے نام سے الگ ملک رہا اور تبّت کو امریکہ اور بھارت آج بھی چین کا حصہ تسلیم نہیں کرتے جبکہ اندرونی منگولیادراصل منگولیا کا علاقہ تھا۔ ان بے آباد، صحرائی، برفانی علاقوں میں چین بہت کوشش کرے تب بھی چند کروڑ افراد سے زیادہ لوگ آباد نہیں کر سکتا۔ سائنس کی مزید ترقی کے بعد مصنوعی ماحول پیدا کرکے یہ مسئلہ شاید حل کر لیا جائے۔ ایسا نہ ہو سکا تو قیامت کا انتظار کرنا پڑے گا جوایک ہی بار سارے مسئلے ہمیشہ کے لئے حل کر دے گی۔
عبداللہ طارق سہیل
بہ شکریہ روزنامہ "نئی بات
↧
↧
Can Nawaz Sharif Lahore Metro Train Project Change Pakistan?
↧
بشار الاسد اپنے آخری خطرناک ہتھیار حوالے نہیں کریں گے........
آیندہ چند ہفتے اور مہینے شام کے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تلفی کے ضمن میں فیصلہ کن ثابت ہوسکتے ہیں۔ان خطرناک ہتھیاروں میں سے ایک چوتھائی ابھی تک بشارالاسد کے پاس ہیں اور ان کی حکومت دنیا کو ڈرانے دھمکانے کے لیے انھیں اپنے پاس ہی رکھنا چاہتی ہے۔
شام کی سرکاری خبررساں ایجنسی سانا نے منگل کو اطلاع دی ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کی تلفی کے کام کی نگرانی کرنے والے بین الاقوامی مبصرین کو اغوا اور قتل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔یہ واقعہ شاید اس بات کا اشارہ ہو سکتا ہے کہ شامی حکومت مبصرمشن میں سے جو باقی لوگ رہ گئے ہیں،ان کے کام میں رکاوٹیں حائل کرنے کی تیاری کررہی ہے۔
شامی صدر بشارالاسد کے گوداموں میں مہلک کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کی بھاری مقدار موجود ہے۔ان میں عالمی جنگ کی باقیات میں سے مسٹرڈ گیس ہے۔حال ہی میں تیار شدہ سیرن اور بوٹولینم ٹاکسن ایسی خطرناک گیسیں ہیں۔پورے پورے شہر کو زہرآلود کرنے کے لیے ان کے چند ایک قطرے ہی کافی ہیں۔شامی رجیم کے پاس انتھراکس جیسے حیاتیاتی ہتھیار ہیں۔اس نے ایسا بیکٹریا تیار کررکھا ہے جس سے طاعون سے ہیضے تک وبائی امراض پھیلائے جاسکتے ہیں۔ان کے علاوہ ایبولا نامی وائرس بھی ہے۔
گذشتہ سال اس وقت تک کسی نے بھی شامی رجیم سے درپیش اس خطرے کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا،جب تک اس نے دمشق کے نواحی علاقے الغوطہ میں سیرن گیس کا استعمال نہیں کیا تھا۔اس حملے کے نتیجے میں پندرہ سو کے لگ بھگ افراد کی حالت غیر ہوگئی تھی اور ان میں اکثریت خواتین اور بچوں کی تھی۔
مشکل اور خطرناک مشن
گذشتہ سال اکتوبر سے بین الاقوامی مبصرین شام کے کیمیائی ہتھیاروں کی بیرون ملک منتقلی کے ایک مشکل اور خطرناک مشن پر عمل پیرا ہیں۔ان مبصرین کا خیال ہے کہ انھوں نے بشارالاسد کے گوداموں سے ان کیمیائی ہتھیاروں کی بھاری مقدار کو منتقل کردیا ہے لیکن ان کیمیائی ہتھیاروں کے بارے میں حالیہ مہینوں سے قبل کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔
تاہم اگر ان ہتھیاروں کی تھوڑی بہت مقدار ملک میں رہ گئی ہے تو اس کو تھوڑا نہیں سمجھںا چاہیے کیونکہ یہ تھوڑی مقدار بھی ہزاروں افراد کے قتل عام کے لیے کافی ہے۔مزید برآں ہم ان ہتھیاروں کے صرف اس ذخیرے کی بات کررہے ہیں جس کے بارے میں بتایا گیا ہے یا جو دریافت ہوا ہے۔
شامی حکومت یقینی طور پر تزویراتی ذخیرہ گاہوں میں دوسرے ہتھیاروں کو چھپا رہی ہے تاکہ انھیں فیصلہ کن کامیابی کے لیے وقتِ ضرورت بروئے کار لایا جاسکے۔وہ ان ہتھیاروں کو استعمال کرسکتی ہے اور پھر القاعدہ یا دولت اسلامی عراق وشام (داعش) یااس طرح کے کسی بھی اور فریق پر ان کا الزام عاید کرسکتی ہے۔
امریکی وزیردفاع چَک ہیگل نے منگل کے روز بزعم خویش یہ کہا ہے کہ امریکا نے اپنا اثرورسوخ اور اہمیت کھوئی نہیں ہے۔لیکن کیسے؟ انھوں نے کہا کہ شامی حکومت نے امریکی دھمکیوں کے خوف سے بڑے محکومانہ انداز میں اپنے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار حوالے کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔یہ درست ہے کہ شامی حکومت کو امریکی طاقت کا خطرہ تھا لیکن کیا یہ طاقت استعمال بھی کی جائے گی،وہ ایسا خیال نہیں کرتی ہے۔
اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس نے اپنے کیمیائی ہتھیاروں کو ٹھکانے لگانے کے لیے معاہدے پر گذشتہ سال ستمبر میں دستخط کیے تھے لیکن وہ تب سے اس پر عمل درآمد میں پس وپیش سے کام لے رہی ہے اور تاخیری حربے استعمال کررہی ہے۔غالباً ہیگل یہ بات نہیں جانتے ہیں کہ شامی رجیم نے غوطہ میں کیمیائی ہتھیاروں کے حملے کے جرم سے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے فائدہ اٹھایا ہے۔وہ اس طرح کہ وہ اپنے اتحادیوں سے افرادی قوت اور ہتھیاروں کے حصول کے لیے وقت گزاری میں کامیاب رہا ہے۔
اسد رجیم نے کیمیائی ہتھیاروں کی تباہی کے لیے معاہدے پر دستخط کے باوجود کلورین اور مسٹرڈ گیس کے استعمال کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔یہ اور بات ہے کہ ان کی کم مقدار استعمال کی جارہی ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ اس معاہدے کی مدد سے دوسرے تباہ کن طریقوں کو استعمال میں لانے میں کامیاب رہا ہے۔انہی کی بندولت اس نے غوطہ اور حمص وغیرہ میں اپنی شکستوں کو فتوحات میں تبدیل کر لیا ہے۔
کیا چک ہیگل یہ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ اسد رجیم نے کیمیائی ہتھیاروں سے فائدہ اٹھایا ہے،وہ اپنی حکمرانی کو طول دینے میں کامیاب رہا ہے اور اس کو کسی بین الاقوامی جوابی کارروائی سے بھی تحفظ مل گیا ہے۔اب ہم سب یہ دیکھ سکتے ہیں کہ اسد رجیم بڑے پیمانے پر جنگ کے بغیر اپنے حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں کو حوالے نہیں کرے گا۔
عبدالرحمان الراشد
↧
Voice of Baitul-Maqdis By Shakeel Turabi
↧
نیزے پہ بھی سر اپنا سرفراز رہے گا.......
یہ کیسی بہادری ہے؟ ان لوگوں کی بہادری بندوق کی نالی کے پیچھے ایک آنکھ بند کر کے ٹریگر دبانے کا انتظار کرتی ہے۔ بندوق کی گولیوں میں موجود بارود کے بل بوتے پر یہ بہادر لوگ کسی بھی نہتے انسان کو غدار قرار دے ڈالتے ہیں، کافر قرار دے ڈالتے ہیں لیکن جب ان کے ہاتھ میں بندوق نہ ہو تو پھر یہ بھیگی بلی بن جاتے ہیں۔ بھگوڑے بن جاتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ سچائی بندوق سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے اور سچ بولنے والوں کو اپنی بات منوانے کیلئے بندوق کی ضرورت نہیں پڑتی اور نہ ہی بندوقوں والے سچے لوگوں کو خاموش کروا سکتے ہیں ظفر آہیر بھی وطن عزیز کے ان نہتے اور مظلوم صحافیوں میں سے ایک ہے جنہیں بندوق کی نالی کے پیچھے چھپ کر ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا گیا، انہیں غدار اور غیر ملکی ایجنٹ کہا گیا لیکن ظفر آہیر صرف پاکستان کے اہل صحافت کا نہیں بلکہ عام لوگوں کا ہیرو بن کر سامنے آیا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ظفر آہیر پر حملہ کس نے کیا لیکن حکومت حملہ آوروں کو گرفتار کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔
سب جانتے ہیں کہ جیو ٹی وی، جنگ گروپ اور ان اداروں سے وابستہ صحافیوں کے خلاف کارروائیوں کا ماسٹر مائنڈ کون ہے لیکن عدالتیں کہتی ہیں کہ ثبوت لیکر آئو۔ جب اعلیٰ عدالتیں حکم دیتی ہیں کہ جیو ٹی وی کی بندش غیر قانونی ہے اور جیو ٹی وی کو بحال کیا جائے تو ان احکامات پر عملدرآمد نہیں ہوتا کیونکہ کیبل آپریٹروں کو بھی بندوق کی نالی کے پیچھے بیٹھی وحشت و درندگی سے خطرہ لاحق ہے ۔ پچھلے کچھ ہفتوں کے واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں اصل طاقت اسی کے پاس ہے جس کے پاس بندوق ہے ۔ آئین و قانون صرف کمزور لوگوں کیلئے ہے۔ حکومت بے بس ہے اور اعلیٰ عدالتوں کے احکامات پر عملدرآمد نہیں ہوتا ۔ حکومت آئین و قانون کی عملداری کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات سے گریز کر رہی ہے۔
حکومت کا سارا زور لندن میں ڈاکٹر طاہر القادری اور چوہدری برادران کی ملاقات کی مذمت پر ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری سے کوئی لاکھ اختلاف کرے لیکن پاکستان آکر سیاست کرنا ان کا حق ہے ۔ حکومت ڈاکٹر طاہر القادری پر غصہ نکالنا چھوڑے اور ہمیں یہ بتائے کہ روزنامہ جنگ ملتان کے ایڈیٹر ظفر آہیر پر حملہ کرنے والے ریاست سے زیادہ طاقتور کیوں ہیں ؟ لاہور، راولپنڈی اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں جنگ کی گاڑیوں پر حملہ کرنے والوں کا سراغ کیوں نہیں لگایا جاتا ؟ کچھ وفاقی وزراء کہتے ہیں کہ صورتحال بڑی نازک ہے، ان کا غصہ ٹھنڈا ہونے کا انتظار کیجئے ۔سوال یہ ہے کہ کیا ’’ان‘‘ کا غصہ پاکستان کے آئین اور قانون سے زیادہ بڑا ہے ؟ اگر ’’ان‘‘ کا غصہ ہی پاکستان کا اصل آئین و قانون اور پاکستان کا اصلی قومی مفاد ہے تو پھر یہ غصہ ہمیں 1971ء میں کیوں نظر نہ آیا ؟ اس وقت تو بڑی سعادت مندی سے دشمن کی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے گئے تھے ۔
میں طنز اور طعنوں کے ذریعہ کسی کو نیچا نہیں دکھانا چاہتا لیکن جن لوگوں نے ظفر آہیر کو بندوقوں کے بٹ مارتے ہوئے انہیں بھارتی ایجنٹ قرار دیا ان سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ بتائو1971ء میں کوئی جیو ٹی وی موجود تھا ؟ تاریخ کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ 1971ء میں مغربی پاکستان کے اخبارات بشمول روزنامہ جنگ وہی کچھ لکھتے تھے جو ڈکٹیٹر جنرل یحییٰ خان کی حکومت انہیں بتایا کرتی تھی۔ سوائے ایک دو اخبارات کے چند صحافیوں کے کسی نے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کی مخالفت نہ کی۔ پھر بھارت کے سامنے تاریخ کا اتنا بڑا سرنڈر کیوں کیا گیا ؟ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں پاکستانی فوج کے بعض افسران اور جوانوں نے بڑی بہادری دکھائی لیکن جب راولپنڈی کے حکم پر سرنڈر کیا جا رہا تھا تو اس وقت خون کے آخری قطر ے اور آخری گولی تک لڑنے کے وعدے کہاں گئے تھے؟کیا ہمیں یہ حق حاصل نہیں کہ یہ پوچھیں کہ آپ کا سارا غصہ اور ساری حب الوطنی صرف اپنوں پر انگارے بنکر کیوں ٹوٹتی ہے ؟ 1971ءمیں تو جیو ٹی وی نہیں تھا پھر پاکستان کس نے توڑ دیا ؟ 1984ءمیں بھی جیو ٹی وی نہیں تھا پھر سیاچن کی چوٹیوں پر قبضہ کیسے ہو گیا ؟ 1999ء میں بھی جیوٹی وی نہیں تھا پھر کارگل سے پسپائی کیوں ہوئی ؟ جیو ٹی وی 2002ء میں آیا اور جیو ٹی وی پر ہم جیسے صحافیوں نے ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی حکومت سے یہ پوچھنا شروع کیا کہ پاکستان کے فوجی اڈے غیر ملکی طاقتوں کو کس سے پوچھ کر دیئے گئے ؟ جیوٹی وی پر ہم جیسے صحافیوں نے یہ پوچھنا شروع کیا کہ پاکستان کے فوجی اڈوں سے اڑنے والے ڈرون طیارے پاکستان میں کس کی اجازت سے حملے کر رہے ہیں ؟
جیو ٹی وی پر بیٹھے صحافیوں اور دوسرے چینلز نے یہ پوچھنا شروع کیا کہ مشرف حکومت اور اسرائیل کے درمیان بیک ڈور ڈپلومیسی کے کیا مقاصد ہیں ؟ جیو ٹی وی پر بیٹھے اینکرز اورمہمانوں نے یہ سوال اٹھانا شروع کیا کہ مشرف حکومت مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نظرانداز کرکے بھارت کے ساتھ کیا سودے بازی کر رہی ہے ؟ جب یہ سوالات اٹھائے گئے تو پہلے مجھے غدار کہا گیا پھر جیو کو بھارت اور اسرائیل کا ایجنٹ قرار دیا گیا۔ جیو کو یہودیوں کا ایجنٹ قرار دینے والے اپنے پیرومرشد سید پرویز مشرف کی کتاب پڑھ لیں ۔ اس کتاب میں موصوف نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا عندیہ دیا ہے ۔ شکر ہے کہ ابھی تک یہ جرات کسی سیاست دان یا صحافی سے سرزد نہیں ہوئی ورنہ ابھی تک بندوق کی نالی کے پیچھے چھپی حب الوطنی اور دینی غیرت اپنا کام دکھا چکی ہوتی ۔
زیادہ تفصیل میں نہیں جائوں گا ۔ مختصر یہ کہ آج کل آپ کو پاکستان میں جو بحران نظر آ رہا ہے اس بحران نے ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین سے غداری کے مقدمے کی کوکھ سے جنم لیا ہے ۔ بندوقوں والے بھارت و اسرائیل کے منظور نظر پرویز مشرف کو ہر صورت غداری کے مقدمے سے بچانا چاہتے ہیں ۔ قابل غور نکتہ یہ ہے کہ سیاست و صحافت میں جو لوگ پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ نہ چلانے کا مشورہ دے رہے تھے ان کی اصلیت سامنے آ چکی ہے ۔ ان میں سے اکثر سیاست دان، دانشور اور نام نہاد صحافی آج کل جیو ٹی وی کو غدار قرار دیکر اپنے اصلی آقائوں کو خوش کر رہے ہیں ۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو چکا ۔ عوام کے سامنے سب کے چہروں سے نقاب اتر چکا۔ جن لوگوں نے 1971ء میں بنگالیوں کو غدار قرار دیکر انہیں گولیاں ماریں آج ہمارے پیچھے پڑے ہیں ۔ جن لوگوں نے بلوچوں کو غدار قرار دیکر انہیں لاپتہ کیا اور انکی مسخ شدہ لاشیں سڑکوں پر پھینکیں آج جیو ٹی وی کو لاپتہ کرکے قتل کرنا چاہتے ہیں اور کچھ بھاڑے کے ٹٹو قلم فروش غداری کا ڈھول پیٹنے والوں کے آگے آگے بڑی بے شرمی کے ساتھ ناچ رہے ہیں ۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ قلم فروشوں اور ضمیر فروشوں کی اس چھوٹی سی ٹولی کو پاکستان کے اہل سیاست و صحافت کی بڑی اکثریت نے مسترد کر دیا ہے اور ان سے پوچھ رہی ہے کہ تمہاری قومی غیرت اور حب الوطنی اس وقت کہاں تھی جب ایک شب امریکی فوجی ہیلی کاپٹروں میں بیٹھ کر ایبٹ آباد آئے اور ایک آپریشن میں تمہاری سب پھرتیوں اور چالاکیوں کو کفن میں لپیٹ کر افغانستان لے گئے ؟ اللہ کرے پاکستان کو جلد از جلد مشرف کی باقیات سے نجات ملے اور ہماری فوج ایک دفعہ پھر میجر عزیز بھٹی شہید اور میجر شبیر شریف شہید جیسے بہادروں کے کردار کا نمونہ بن جائے جو ظفر آہیر جیسے نہتے ہم وطنوں کیخلاف نہیں بلکہ طاقتور دشمن کے خلاف جنگ کرتے تھے ۔آخر میں ظفر آہیر پر حملہ کرنے والے مکاروں کے نام فیض احمد فیض کا یہ پیغام عرض ہے ۔
تاحشر زمانہ تمہیں مکار کہے گا
تم عہد شکن ہو، تمہیں غدار کہے گا
جو صاحب دل ہے، ہمیں ابرار کہے گا
جو بندہ حر ہے ،ہمیں احرار کہے گا
نام اونچا زمانے میں ہر انداز رہے گا
نیزے پہ بھی سر اپنا سرفراز رہے گا
حامد میر
بشکریہ روزنامہ "جنگ"
↧
↧
نظام خطرہ میں یا پاکستان؟؟.......
کیا کسی نے مسلم لیگ ق کو چابی دی یا اپنے تئیں ہی اس پارٹی کے تقریباً تمام رہنما (جن کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے) لندن پہنچ گئے؟ کیاکسی نے واقعی اپنے آپ کو مولانا کہلوانے سے گریز کرنے والے کینیڈین شہری ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کی ڈوری ہلائی یا وہ خود ہی پاکستان کی ’’محبت‘‘ میں دوڑے دوڑے لندن پہنچ گئے؟ کیا کسی کے ایجنڈے پر ان دونوں جماعتوں کے درمیان چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر موجودہ نظام کے خاتمہ کا ایک معاہدہ کرا دیا گیا یا واقعی یہ مسلم لیگ قادری گروپ کا اپنا فیصلہ ہے ؟ کوئی کیا حقیقتاً اتنی جلدی میں ہے کہ کینیڈین علامہ کو جون میں ہی پاکستان بلوا لیا تا کہ پاکستان کی جلد از جلد ’’خدمت‘‘ کی جائے اور اُسے اس موجودہ ’’ناپاک‘‘ نظام سے پاک کیا جا سکے یا کہ واقعتا پاکستان کے حالات بہت خراب ہو چکے اور اب مزید ایک دن کا انتظار نہیں کیا جا سکتا؟ اگر یہ کام کسی کے اشاروں پر ہو رہا ہے جس اندیشہ کا اظہار بہت سے لوگ کر بھی رہے ہیں تو پھر آفرین ہے اُن پر جنہوں نے ’’ناپاک‘‘ نظام کو پاک کرنے اور اس ملک میں ’’اصل جمہوریت‘‘ لانے کے لیے علامہ طاہر القادری اور گجرات کے چوہدریوں کا چناو کیا۔
گزشتہ ایک سال میں ایسا کیا ظلم ہوا کہ نظام کو بدلنے کے لیے کام شروع کروایا جا رہا ہے۔ گزشتہ ایک سال میں کتنے کرپشن کے سکینڈل سامنے آئے کہ اب اس نظام کو مزید برداشت کرنا ممکن نہیں؟ پاکستان کی معیشت کی تباہ حالی میں موجودہ حکومت نے کیا اور برا کیا کہ اب ان کو باہر پھینکنے کے سوا کوئی چارہ نہیں؟ پاکستان میں دہشتگردی میں خاطر خواہ کمی اور ڈرون حملوں کا رکنا بھی کیا کچھ لوگوں کو یہاں پسند نہیں؟ موجودہ حکومت کے گورننس کے کچھ سنجیدہ مسائل ضرور ہیں مگر گزشتہ کئی سالوں سے شدید مسائل کا شکار پاکستان کی معیشت کے جو بہتری کے آثار سامنے آ رہے ہیں تو وہ کیا پاکستان کے مفاد میں نہیں؟
حکومت کی پالیسیوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، ان پر بہت کچھ نہ کرنے کی بنا پر پریشر بھی ڈالا جانا چاہیے مگر یہ کہنا کہ آج پاکستان کے حالات بہت بگڑ گئے، درست نہیں۔ ورلڈ بنک ہو یا آئی ایم ایف، ملکی میڈیا ہو یا غیر ملکی میڈیا عمومی طور پر یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ پاکستان کے حالات گزشتہ ایک سال میں بہتری کی طرف گامزن ہیں۔ مگر اس سب کے باوجود ایک دم سے ایسا کیا ہوا کہ حکومت اور نظام کے ہی خاتمہ کی بات کر دی جائے۔ عمران خان اور تحریک انصاف کا احتجاج تو ایک اچھے مقصد (الیکشن نظام میں اصلاحات) کے لیے ہے مگر جو لوگ لندن میں جمع ہوئے وہ تو ہمیشہ مشکوک کھیل کا ہی حصہ رہے اور جمہوریت مخالف قوتوں کے آلہ کار رہے۔
وزیر اعظم نواز شریف کو چاہیے کہ وہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں موجود پارٹیوں پر مشتمل ایک مشرکہ کمیٹی عمران خان کی سربراہی میںبنائیں جس کا مقصد الیکشن نظام میں اصلاحات کا پیکچ تیار کرنا ہو تاکہ پاکستان میں انتخابات کو ہر قسم کی دھاندلی سے پاک کیا جا سکے۔ کچھ ن لیگی رہنماوں کی کوشش ہے کہ عمران خان کو مسلم لیگ قادری کی طرف دھکیل دیا جائے جو میری نظر میں پاکستان کے لیے بہتر نہیں ہو گا۔ اچھا ہوا عمران خان نے لند ن میں جیو کے مایہ ناز صحافی مرتضی علی شاہ سے بات چیت کرتے ہوئے یہ بیان دیا کہ وہ مسلم لیگ قادری کی مہم جوئی کا حصہ بننے کا ارادہ نہیں رکھتے۔
میری تو میاں نواز شریف اور عمران خان سے گزارش ہو گی کہ مل کر ملک کی تعمیر و ترقی اور اداروں کی مضبوطی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ پیپلز پارٹی کے آصف علی زرداری احتسابی عمل پر معترض ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ پاکستان میں احتساب کے نظام کی شفافیت اور با اثر بنانے کے لیے بھی پارلیمنٹ میں سب پارٹیوں کے ساتھ مل بیٹھ کر ایک ایسا سسٹم بنائے جس پر سب کا اعتبار ہو اور جوہر قسم کے بیرونی اثر اور سیاسی دباو سے پاک ہو۔ نظام بچانے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ دیکھا جائے کہ کیا ریاست کے اندر کوئی ایسی ریاست تو نہیں جو جمہوریت، آزاد عدلیہ اور قانون کی حکمرانی جیسے اصولوں کو یہاں پنپنے نہیں دے رہی۔ یہ حکومت و پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ ایسے افراد، چاہے ان کا کسی بھی ادارے سے تعلق ہو، کو بے نقاب کرے جو قومی اداروں کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں، جو غداری کا سرٹیفیکیٹ جاری کرنے کا کاروبار کر رہے ہیں اور جو میڈیا کی کالی بھیڑوں اور اشارہ پر کام کرنے والی پارٹیوں کو اپنے پروپیگنڈہ کے لیے استعمال کر رہے ہیں؟
آخر یہ تو پتا لگنا چاہیے کہ کس نے جیو کا کیس سننے پر سپریم کورٹ اوراُس کے انتہائی معزز جج محترم جسٹس جواد خواجہ کے خلاف مہم جوئی کی اور انہیں بدنام کرنے کے لیے اسلام آباد کے ریڈ زون تک میں بڑے بڑے بینر لگوادیے؟ وہ کون ہے جو جیو کے معاملہ پر حکومت کے مثبت رویے کی وجہ سے حکومت کے خلاف ہی سازشوں پر اتر آیا ہے؟ وہ کون ہے جس نے حکومت کی رٹ کو چیلنج کیا اور پیمرا کو اپنے اشاروں پر ناچنے پر مجبور کیا؟ وہ کون ہے جس نے کیبل آپریٹرز کو جیو بند کرنے پر مجبور کیا؟ وہ کون ہے جس کے سامنے سپریم کورٹ کے فیصلوں کی کوئی حیثیت نہیں؟ کس کے کہنے پر جنگ اور دی نیوز کی ہزاروں کاپیوں کو جلا دیا؟ وہ کون ہے جس کے اشارہ پر ایسا عمل کرنے والوں کو اتنی شرم نہیں آئی کہ ان اخبارات میں لکھی قرآنی آیات کی حرمت کا ہی خیال کر لیتے؟ وہ کون تھے اور کس کی طرف سے بھیجے گئے تھے، جنہوں نے جنگ ملتان کے ایڈیٹر ظفر آہیر پر بزدلانہ حملہ کیا اور اُنہیں شدید زخمی کر دیا؟ وہ کون ہے جو پاکستان کو افراتفری کی طرف دھکیلنے کا کا م کر رہا ہے؟ وہ کون ہے جو قانون سے بالاتر ہے؟ وہ کون ہے جن پر قانون نافذ کرنے والے ہاتھ نہیں ڈال سکتے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب ڈھونڈنا حکومت اور پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو نظام تو بچ نہیں سکتا نجانے پاکستان کا کیا ہو گا۔ اللہ اسلام کے نام پر بننے والے ہمارے اس ملک کو ہمیشہ سلامت رکھے اور ہم سب کو اپنے اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر اس کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ "جنگ"
↧
Nasrullah Shaji

جماعت اسلامی کراچی کے نائب امیر نصراللہ خان شجیع 1970میں کراچی کے علاقے حیدرآباد کالونی میں پیدا ہوئے۔ دور طالبعلمی میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوئے اور طلبہ سیاست میں اہم کردار کیا۔اور1996 سے 1998تک اسلامی جمعیت طلبہ کراچی کے ناظم مقرر ہوئے۔جامعہ کراچی سے ماسٹرزکی ڈگری حاصل کی اور تعلیم سے فراغت کے بعد جماعت اسلامی سے منسلک ہوکر عملی سیاست میں اپنا کردار ادا کیا۔نصر اللہ خان شجیع جماعت اسلامی ضلع شرقی کے امیر اور تاحال جماعت اسلامی کراچی کے نائب امیرتھے۔
سال 2002 کے عام انتخابات میں ایم ایم اےکے پلیٹ فارم سے حصہ لیا کراچی کے حلقے پی ایس 116 سے 30سال کی عمر میں رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے۔اور سندھ اسمبلی میں متحدہ مجلس عمل کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر کی حیثیت سے اسمبلی میں عوام کی آواز بنے۔نصر اللہ شجیع دور طالبعلمی سے ہی جوشیلے مقرر اور لوگوں میں ہر دلعزیز تھے۔طلبہ حقوق کی جدوجہد ہو یا عوامی مسائل پر آواز اٹھانے نصراللہ شجیع نے ہمیشہ اہم کردار اداکیا۔
نصراللہ شجیع شعبہ تعلیم سے وابستہ تھے اور عثمان پبلک اسکول سسٹم کیمپس 13کے پرنسپل ہیں۔نصراللہ شجیع کے دو بیٹے اور ایک بیٹی، اہلیہ اور والدہ
Nasrullah Shaji
↧
Remember Nasrullah Shaji
↧
The Economic costs of Pakistan's war against terror

پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے سبب گزشتہ تین سال کے دوران معیشت کو28ارب 45کروڑ98لاکھ ڈالرکا نقصان اٹھانا پڑا جبکہ دنیاکے امن کی خاطر2002 سے شروع ہونے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کے طور پرپاکستان نے102.51ارب ڈالر (8ہزار264ارب روپے) جھونک دیے،سرمایہ کاری پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے تجارتی سرگرمیاں ماند ہونے سے ٹیکس وصولیاں بھی بری طرح متاثر ہوئیں۔
اکنامک سروے رپورٹ برائے سال 2013-14میں پاکستان میں گزشتہ 3 سال کے دوران دہشت گردوں کے حملوں اور گزشتہ13سال کے دوران افغان جنگ کے سبب پاکستان پرپڑنے والے مالی بوجھ کے بارے میں خصوصی باب شامل کیا گیا ہے جس کے مطابق مالی سال2011-12سے مالی سال2013-14کے دوران پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی نے معیشت کو28ارب 45کروڑ98لاکھ ڈالر کانقصان پہنچایا جس میں سے ایکسپورٹ کو2ارب 29کروڑ ڈالرکانقصان ہوا۔
دہشت گردی کے سبب معاشی سرگرمیوں میں سست روی کے سبب ٹیکس وصولیوں کی مد میں6ارب47کروڑ99لاکھ ڈالر،غیرملکی سرمایہ کاری کی مد میں 8 ارب 6 کروڑ 70 لاکھ ڈالر، نجکاری کے منصوبوں میں تاخیر کے باعث 4ارب 99کروڑ64لاکھ ڈالر، انفرااسٹرکچر کو 2ارب 47 کروڑ ڈالر،متاثرین کی بحالی کی مد میں5کروڑ 92لاکھ ڈالر، صنعتی پیداوار میں کمی کے سبب 76کروڑ97لاکھ ڈالر، غیر یقینی صورتحال کے سبب20کروڑ47لاکھ ڈالر،جاری اخراجات میں اضافے کے سبب64کروڑ 45لاکھ ڈالر اور متفرق2ارب47کروڑ53لاکھ ڈالر کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ مالی سال2011-12کے دوران دہشت گردی نے معیشت کو11ارب 79کروڑ75لاکھ ڈالر کا نقصا ن پہنچایا۔
مالی سال 2012-13کے دوران دہشت گردی کے سبب معیشت کو9ارب 96کروڑ86لاکھ ڈالرکا نقصان پہنچاجبکہ مالی سال 2013-14 میں 6 ارب 69کروڑ37لاکھ ڈالر کا نقصان ہوا۔ افغانستان میں جاری دہشت گردی کی جنگ پر پاکستان نے کسی ایک سال میں سب سے زیادہ23.77ارب ڈالر خرچ کیے ، سال2009-10 میں13.56ارب ڈالر جبکہ سال2011-12کے دوران11.98ارب ڈالر خرچ کیے گئے۔ یہ اعدادوشمار وزارت خزانہ، وزارت دفاع اور وزارت خارجہ پر مشتمل مشترکہ وزارتی کمیٹی نے مرتب کیے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق نائن الیون کے بعد سے افغانستان میں امریکی یلغار کے بعد پاکستان کو سخت ترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑا افغانستان سے لاکھوں افراد پاکستان نقل مکانی کرگئے اس کے ساتھ ہی پاکستان میں دہشت گردی کی کاررروائیوں میں بھی شدت پیدا ہوگئی، داخلی سیکیورٹی اور معیشت کو درپیش یہ خطرات اب بھی موجود ہیں اور معاشی ترقی و استحکام کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں اور پاکستان قیمتی جانی نقصان کے ساتھ بھاری مالی نقصان برداشت کررہا ہے ، دہشت گردی کے سبب پاکستان میں تجارتی اور پیداواری سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوئیں جس سے نہ صرف پیداواری لاگت بڑھ گئی بلکہ ایکسپورٹ آرڈرز بھی بروقت پورے نہ ہونے سے ایکسپورٹ کی مد میں بھاری نقصان اٹھانا پڑا اور نتیجے میں پاکستانی مصنوعات کے لیے عالمی منڈی میں اپنامقام برقرار رکھنا دشوار تر ہوتا چلاگیا۔
The Economic costs of Pakistan's war against terror
↧
↧
Over half of Pakistan lives under poverty line
↧
Altaf Hussain arrested in London
Muttahida Qaumi Movement (MQM) Altaf Hussain was arrested on Tuesday in London on charges of money laundering but his party has denied that any arrest had happened. The London Metropolitan police confirmed that a 60-year-old man had been arrested from a North-West London property on charges of money-laundering, but they declined to disclose the exact identity for "legal reasons".
The police said a Specialist Operations unit was currently carrying out a search operation at the property in northwest London. Scotland Yard as saying that the investigation would continue for 24 hours.
Moreover, London police has said that an audio-video statement has been recorded of the arrested man.
↧
Pakistan Needs Education Reform by Idrees Bakhtiar
↧