↧
کچھ احوال بھائی کی لندن میں گرفتاری کا!.........
↧
Geo News Shutdown by Pemra
↧
↧
پاکستان کے دفاعی اداروں اور جیو نجی میڈیا گروپ کے درمیان محاذ آرائی میں شدت......
پاکستان کے نجی ٹیلی ویژن چینل جیو نیوز نے اپنے لائسنس کی معطلی کے چند گھنٹے کے بعد ملک کے طاقتور خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور وزارت دفاع کے خلاف ہتکِ عزت کا دعویٰ کردیا ہے۔
جیو نیوز کے ملکیتی انڈی پینڈینٹ میڈیا گروپ نے یہ دعویٰ دفاعی اداروں کی جانب سے اپنے خلاف عاید کیے جانے والے ملک دشمنی کے الزامات کے جواب میں دائر کیا ہے۔پاکستان کے قومی اداروں اور جیو گروپ کے درمیان معروف صحافی حامد میر پر 19 اپریل کو کراچی میں قاتلانہ حملے کے بعد سے محاذ آرائی چل رہی ہے۔
جیونیوز نے حامد میر پر فائرنگ کے فوری بعد آئی ایس آئی اور اس کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام پر اس حملے کا الزام عاید کردیا تھا اوراس نے اپنی نشریات میں کئی گھنٹے تک ان کی تصاویر اس انداز میں دکھائی تھیں کہ گویا وہی واقعے کے ذمے دار ہیں۔تاہم ابھی تک حامد میر پر حملہ کرنے والوں کا سراغ نہیں لگایا جاسکا ہے۔
وزارت دفاع نے گذشتہ ماہ جیونیوز کے خلاف پاکستان کے میڈیا ریگولیٹر ادارے پیمرا کے ہاں درخواست دائر کردی تھی اور اس کا لائسنس معطل کرنے کے لیے کہا تھا۔ اس پر آج جمعہ کو پیمرا نے جیو نیوز کا پندرہ روز کے لیے لائسنس معطل کردیا ہے اور اس پرقواعد وضوابط کی خلاف ورزیوں پر ایک کروڑ روپے جرمانہ بھی عاید کیا ہے۔
اس کے ردعمل میں جیو اور جنگ گروپ نے وزارت دفاع ،انٹر سروسز انٹیلی جنس اور پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کو ایک قانونی نوٹس جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ان اداروں نے گروپ کو ملک دشمن قرار دے کر اس کی شہرت داغدار کی ہے اور اس کو نقصان پہنچایا ہے۔
اس ادارے کے اخبار جنگ کی ویب سائٹ پر جاری کردہ بیان کے مطابق ''آٹھ ہزار سے زیادہ صحافی ،کارکنان اور پروفیشنلز اس گروپ سے وابستہ ہیں۔پاکستان بھر میں نہ صرف انھیں بلکہ ان کے خاندانوں کو بھی ہراساں کیا جارہا ہے۔ان پر حملے بھی کیے گئے ہیں اور انھیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے''۔
جیو نیوز نے آئی ایس آئی سے کہا ہے کہ وہ چودہ روز میں ادارے پر عاید کردہ ملک دشمنی کے الزامات واپس لے اور معافی نامہ جاری کرے۔پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی نجی ادارے نے اس طرح آئی ایس آئی کو نوٹس جاری کیا ہے اور اس سے معافی مانگنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
جیو کے اس اقدام اور پیمرا کے حکم سے ظاہر ہے کہ ملک میں گذشتہ ڈیڑھ ماہ سے زیادہ عرصے سے جاری میڈیا کی لڑائی ختم نہیں ہوگی بلکہ اس میں اب اور بھی شدت آئے گی۔جیو نے اس سے پہلے خود آئی ایس آئی اور وزارت دفاع سے اپنی مذکورہ نشریات پر معافی طلب کی تھی لیکن اس کے باوجود اس کو معاف نہیں کیا گیا تھا اور اب اس نے جوابی وار کرتے ہوئے آئی ایس آئی سے معافی کا مطالبہ کردیا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری کی ایک تین رکنی کمیٹی نے گذشتہ ماہ جیو ٹی وی نیٹ ورک کے تین ٹیلی ویژن چینلوں کے لائسنس عارضی طور پر منسوخ کرنے اور اس کے دفاتر سیل کرنے کا حکم دیا تھا لیکن اس حکم پر عمل درآمد نہیں کیا گیا تھا کیونکہ خود پیمرا نے ہی اپنے تین پرائیویٹ ارکان کے فیصلے سے لاتعلقی ظاہر کردی تھی۔ پیمرا کے مذکورہ حکم سے قبل ہی پاکستان کے بہت سے علاقوں میں جیو کی نشریات معطل ہیں یا پھر کیبل آپریٹروں نے حکام کے دباؤ پر اس کو آخری نمبروں پر کردیا ہے۔پاکستان کے دو تین اور نجی ٹی وی چینلز بھی جیو کے خلاف مہم چلا رہے ہیں اور اس کو اپنے ٹاک شوز میں ملک دشمن قرار دے رہے ہیں جبکہ سوشل میڈیا پر بھی بزعم خویش محب وطنوں نے اس چینل کے خلاف مہم شروع کررکھا ہے۔تاہم ملک کی صحافتی برادری اس چینل کی بندش کے خلاف ہے
↧
Future of MQM by Saleem Safi
↧
Challenges for MQM by Tariq Butt
↧
↧
Kashf ul Mahjoob........کشف المحجوب
↧
آئی ایس آئی کے خلاف مغربی استعمار کی پروپیگنڈا مہم.........
19مئی کی شب کو بی بی سی کے سیربین پروگرام میں پاکستان کی قومی خبر ایجنسی آئی ایس آئی خاص موضوع گفتگو بنی رہی جس میں فوج کے سابق ڈائریکٹر تعلقات عامہ لیفٹیننٹ (ر) جنرل اطہر عباس، بریگیڈیئر (ر) سعد، شمالی امریکہ میں کسی فکری ادارے ( تھنک ٹینک نہیں کہہ سکتا کہ اس سے باردو کی بو آتی ہے) کے سربراہ کامران بخاری جو مشرق وسطیٰ جنوبی ایشیا ، امریکی امور اور تزویراتی علوم کے ماہر کی حیثیت سے متنوع موضوعات پر رائے زنی کے لے مدعو کیے جاتے ہیں نے اپنے اپنے نقطہ ہائے نظر سے سامعین کو آئی ایس آئی کے کردار کے بارے میں باخبر کیا۔ ان مبصرین کی نظر میں آئی ایس آئی کی سرگرمیاں حد سے تجاوز کرنے کے باعث اندرون و بیرون ملک ریاست کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں لہٰذا انہیں محدود کرنے کی ضرورت ہے البتہ بریگیڈیر سعد نے سلامتی امور میں آئی ایس آئی کے کردار کو مثبت قرار دیتے ہوئے سراہا جبکہ اطہر عباس کا رویہ معذرت خواہانہ رہا اور انہوں نے فرمایا کہ ماضی میں اس ایجنسی کو آمروں نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا اس لیے اس کا کردار متنازع ہو گیا۔ آخر میں انہوں نے مشورہ دیا کہ آئی ایس آئی کو اپنے بارے میں منفی تاثر دور کرنے کے لیے ملک کی عسکری تنظیموں کی سرپرستی ترک کر دینی چاہیے جبکہ ایک اور مبصر تو آئی ایس آئی سے اتنے بدظن تھے کہ اسے دوٹوک مشورہ دیا وہ خاموش رہے تو بہتر ہے کیونکہ وہ جتنا ذرائع ابلاغ کو اپنی صفات کے لیے استعمال کرے گی وہ اتنی ہی متنازع ہوتی جائے گی۔ ہم آئی ایس آئی کے سربراہ پر کسی صحافی پر کیے گئے قاتلانہ حملے کا الزام لگانے اور جیو پر اس خبر کو آٹھ گھنٹے چلانے کے پس منظر میں آئی ایس آئی کے احتجاج کو قانونی اقدام سمجھتے ہیں اور اگر کوئی مسخرا یہ کہے کہ اس قومی ایجنسی کو اپنی صفائی میں بھی کچھ کہنے کا بھی حق نہیں ہے اور اسے خاموش رہنا چاہیے تو اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ مؤقر ریاستی ادارہ اپنے اوپر عائد جھوٹے الزام کو تسلیم کر رہا ہے۔ کیا ادارے کے سربراہ کو جیو پر ہتک عزت کا دعویٰ کرنے کا بھی حق نہیں ہے۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ آئی ایس آئی سے غلطیاں نہیں سر زد ہوئیں اور دنیا کی کونسی ایجنسی ہے جو ادائیگی فرض کے جوش میں اپنے اور غیر ملکی شہریوں کی حق تلفی نہیں کرتی۔ ایسی صورت میں خود ایجنسی یا فوج یا حکومت اس کی اصلاح یا سرزنش کرنے کا پورا حق رکھتی ہے ۔ اس مذاکرے میں برطانیہ ، امریکہ اور کینیڈا میں بیٹھے مبصرین کو آئی ایس آئی کی آنکھ میں پڑا تنکا تو نظر آ گیا لیکن سی آئی اے کی آنکھ میں دھنستی شہتیر نہیں دکھائی دی۔ مجھے نہیں معلوم کہ سمندر پار بیٹھے تجزیہ نگار اُن ممالک کے شہری ہیں یا دہری شہریت کے حامل ہیں تاہم انہیں یہ مشورہ بارک اوباما کو دینا چاہیے کہ وہ سی آئی اے کو دوسرے ممالک کے شہریوں کو اغوا اور قتل کرنے سے روکے۔ کیا کسی ملک کی ایجنسی کو دوسرے ممالک کے خلاف جنگ کرنے کا اختیار ہ ہے؟ ان معترضین کو اپنے سامعین کو یہ بھی بتانا چاہیے تھا کہ افغانستان میں روسی افواج کی موجودگی پر مراکش ، الجزائر، تیونس، لیبیا، سعودی عرب، یمن، اردن اورپاکستان سے ایک لاکھ مجاہدین بھرتی کیے ،انہیں تربیت دی اور افغانستان میں داخل کیا تاکہ وہ روسی فوج اور اس کی اتحادی ببرک کارمل اور نجیب کی حکومت کے خلاف چھاپہ مارجنگ شروع کر دیں۔
ان مجاہدین کو امریکی صدر ریگن نے امریکہ کی جنگ آزادی کے سپاہیوں کے مثل قرار دیا اور ان میں مذہبی ولولہ (جسے اب انتہا پسندی کہا جا رہا ہے) پیدا کرنے کے لے اوکلا ہوما یونیورسٹی میں اردو، فارسی اور پشتو زبانوں میں جہاد کے فضائل پر پمفلٹ اور کتابچے شائع کر کے انہیں گھر گھر پہنچایا گیا یہی نہیں امریکی ڈالر اور سعودی ریال سے 1980ء تا 1988ء بے شمار مدارس قائم کیے گئے اور انہیں جہاد کے لیے متحرک کیا گیا۔ لیکن ستمبر 2001ء میں جب امریکہ اور ناٹو ٹولہ افغانستان کی حکومت کا تختہ الٹ کر اس پر قابض ہو گیا اور سی آئی اے نے بگرام میں عقوبت خانے کھولے جبکہ امریکی فوجیوں نے شہری بستیوں پر شب خون مارنا، مردوں کو قتل کرنا اور عورتوں کی عصمت دری شروع کر دی تو سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے تربیت یافتہ افغان اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور اعلان جہاد کر دیا تو وہی جنگ آزادی دہشت گردی بن گئی اور وہی مجاہدین دہشت گرد بن گئے :خرد کا نام رکھ دیا جنون اور جنون کا خردجو چاہے آ پ کا حسن کرشمہ سا ز کرے
یورپ اور امریکہ میں مقیم مبصرین مقامی حکومتوں کو مشورہ دیں کہ سی آئی اے کے اڈے کیوں نہیں بند کیے جاتے، سی آئی اے یمن، مالی ، صومالیہ، نائیجیریا اور پاکستان پر ڈرون حملے کیوں کرتی ہے؟ کیا کسی ریاست کی مخبر ایجنسی کو دسرے ممالک کے خلاف جنگ، تخریب کاری اور ان کے شہریوں کے قتل اور اغوا کا اختیار حاصل ہے؟ اگر ہے تو کس قانون یا اخلاقی ضابطے کے تحت؟ ہمیں تو مشرف جنتا سے یہی شکایت ہے کہ اس نے پاکستان کی فوج اور آئی ایس آئی کو ایک ہمسایہ ملک پر حملہ آور فوج کی کیوں معاونت کی؟ امارات اسلامی افغانستان سے تو پاکستان کے نہ صرف سفارتی بلکہ خوشگوار برادرانہ تعلقات تھے۔ مشرف یا اس کے بعد سیاسی حکومت نے امریکی سی آئی اے اور ایف بی آئی کو کیوں ملک میں داخل ہونے کی اجازت دی؟ امریکی انتظامیہ ہمیشہ افواج پاکستان اور سی آئی اے پر الزام لگاتی رہی کہ وہ طالبان سے ملے ہوئے ہیں۔ کامران بخاری امریکی انتظامیہ سے کہیں ناں کہ وہ سی آئی اے بلیک واٹر کے گماشتوں کو پاکستان میں کیوں داخل کرتی ہے؟ جبکہ ہم آئی ایس آئی سے پوچھیں گے کہ وہ انہیں ملک سے نکال باہر کیوں نہیں کرتی کیونکہ وہ سلامتی کے لیے ایک مہیب خطرہ بن گئے ہیں؟
وکی لیکس اور سنوڈن کے انکشافات سے یہ بات منظر عام پر آ گئی ہے کہ امریکہ نے اندرون و بیرون ملک جاسوسی کا ایسا جال بچھا رکھا ہے کہ نہ تو امریکہ کے کسی شہری کو نجی آزادی (Privacy) حاصل ہے، نہ چہار دیواری کا تقدس نہ مراسلے کے ارسال و حصول کا حق نہ ہی ذاتی بینک کھاتوں ، بیمہ پالیسیوں، جائیداد کی ملکیت کے دستاویزات کی ضمانت، حد تو یہ ہے کہ امریکہ کے وفادار نیٹو حلیف بھی ایجنسیوں کے دست برد سے محفوظ نہیں رہے۔ جرمنی کی چانسلر برازیل کی صدر کے نجی ٹیلیفون تک ریکارڈ کیے جا رہے ہیں۔ اسے امریکہ اپنی سلامتی کے لیے ضروری سمجھتا ہے۔ اور انسداد دہشت گردی کے نام پر پے در پے جو قوانین پارلیمان منظور کرتی ہے ، اس میں ریاست کی ایجنسیوں کو بھی وہ سب کچھ کرنے کا اختیار دے دیا گیا ہے جو امریکہ نے سی آئی اے اور دیگر کو دے رکھا ہے۔ شہریوں کو راستے یا گھروں سے اٹھا کر لے جانا اور انہیں نامعلوم حراستی مراکز میں 90 دن تک قیدی رکھنے کا اختیار کس نے دیا ہے؟ اگر ایجنسیاں ان اختیارات کو استعمال کرتی ہیں تو بدنام ہو جاتی ہیں جبکہ اس کی ذمہ دار وہ پارلیمان ہے جو ایسے کالے قوانین منظور کرتی ہے لیکن اس کی ذمہ داری قبول نہیں کرتی بلکہ خود بیشتر سیاسی پارٹیاں ایجنسی کی کردار کشی کی امریکی اور بھارت کی مہم کی حمایت کرنے لگتی ہیں۔
پروفیسر شمیم اختربہ شکریہ روزنامہ ’’نئی بات‘‘
↧
اندرونی چوٹیں.........
ایک جھوٹ چھپانے کیلئے کئی جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔ مجھے بتانے کی ضرورت نہیں آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ آج کل کون کون کتنا جھوٹ بول رہا ہے اور کس کس ادارے کو دنیا کے سامنے تماشہ بنا رہا ہے ۔ جیو ٹی وی پر غداری کا الزام لگا کر پیمراسے کارروائی کی درخواست کی گئی تھی ۔ پیمرا کی کارروائی سے قبل ہی جیو ٹی وی کی بندش شروع ہو گئی اور روزنامہ جنگ کی گاڑیوں پر حملے شروع ہو گئے۔ ڈیڑھ ماہ گزرنے کے بعد جیو کو نہ غدار ثابت کیا جا سکا نہ کوئی ٹھوس ثبوت سامنے لایا گیا اور پیمرا نے جیو کو پندرہ یوم کیلئے معطلی اور ایک کروڑ روپے جرمانہ کی سزا سنا دی ۔ جب جیو کیخلاف پیمرا کا فرمان مختلف ٹی وی چینلز پر گونج رہا تھا تو میں ایک دفعہ پھر ہاسپٹل جانے کی تیار کر رہا تھا ۔19 اپریل کو کراچی میں قاتلانہ حملے میں پیٹ میں لگنے والی ایک گولی نے مثانے کو بھی نقصان پہنچایا تھا جس کے باعث ایک گردہ بھی متاثر ہوا ۔ ڈاکٹروں نے طویل آپریشن کے دوران میرے گردے او مثانے میں ایک سٹنٹ ڈال دیا تھا ۔
اس سٹنٹ کو چھ ہفتوں کے بعد نکلوانا تھا ۔ چھ ہفتے پورے ہونے کو تھے دوستوں اور عزیزوں کا دبائو تھا کہ یہ کام بیرون ملک سے کرایا جائے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے یہ کام راولپنڈی کے ایک ماہر ڈاکٹر کے ہاتھوں اسلام آباد کے ایک ہاسپٹل میں بخیرو عافیت انجام پا گیا ۔تمام دن ہاسپیٹل میں گزرا ڈاکٹر نے تاکید کی کہ کم از کم مزید ایک رات ہاسپیٹل میں ضرور گزاری جائے لیکن ہاسپیٹل کے عملے کی منت سماجت کرکے میں رات کو ہی گھر واپس آ گیا ۔ جسم سے سٹنٹ نکلنے کے بعد لمبی نیند آئی۔ اگلی صبح بیدار ہوا تو ایک صحافی دوست کا پیغام ملا کہ اسے شمالی وزیرستان کے ایک فون نمبر سے کال کرکے قتل کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ وہ جیو چھوڑ دے ورنہ اس کا انجام برا ہو گا ۔ نجانے یہ خوفناک پیغام پڑھ کر میرے چہرے پر مسکراہٹ کیوں پھیل گئی شائد میں دھمکیاں دینے والوں کی بیوقوفی پر مسکرا رہا تھا ۔ اخبارات کا بنڈل کھولا تو وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کی مایوسی سے ملاقات ہوئی ۔
خواجہ صاحب کے خیال میں پیمرا کی طرف سے جیو ٹی وی کو سنائی جانے والی سزا بہت کم ہے اور وزارت دفاع اس سزا پر نظرثانی کی درخواست کا حق محفوظ رکھتی ہے ۔ عمران خان کو بھی یہ سزا کم لگ رہی ہے بلکہ جیو اور حکومت کی ملی بھگت لگ رہی ہے تاہم ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کو یہ سزا بہت زیادہ لگی انہوں نے کہا کہ جیو کیلئے صرف ایک دن کی بندش ہی کافی تھی ۔ جس واقعے سے اس بحران نے جنم لیا وہ 19اپریل کو پیش آیا تھا ابھی تک حکومت نے یہ نہیں بتایا کہ 19اپریل کو کراچی میں مجھ پر قاتلانہ حملہ کس نے کیا ؟اس دن پرویز مشرف کو کراچی لایا جا رہا تھا شہر میں ریڈالرٹ تھا ۔مجھ پر ایئر پورٹ کے قریب پہلی گولی چلائی گئی جو کندھے میں لگی پھر حملہ آوروں نے کئی کلو میٹر تک پیچھا کیا ۔ آخری گولی آغا خان ہاسپیٹل کے قریب ماری گئی اس پورے راستے میں پولیس اور رینجرز کہاں تھی ؟ سکیورٹی کیمرے کیوں بند تھے؟
ان سوالات کے جواب نہیں دیئے جا رہے الٹا یہ ثابت کیا جا رہا ہے کہ مجھ پر کوئی حملہ نہیں ہوا بلکہ میں نے کسی کے جسم میں چھ گولیاں اتار دی ہیں ۔ اسے کہتے ہیں چوری اور اس پر سینہ زوری ۔ کراچی پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے حملے کے نو روز کے بعد مجھے اصل کہانی بتا دی تھی اور کہا تھا کہ سب کچھ پتہ چل گیا ہے لیکن کراچی پولیس میں اتنی طاقت نہیں کہ اصل کہانی بتا دے ۔ اس افسر نے یہ کہہ کر میرا منہ بند کرا دیا کہ ہم پولیس والے تو وزیر دفاع سے بھی زیادہ بے اختیار ہیں ۔ مجھے جو کچھ معلوم تھا وہ میں نے جوڈیشل کمیشن کو بتا دیا اور اس معاملے پر فی الحال زیادہ بات نہیں کروں گا کیونکہ ادارے کے ایک سینئر ایڈیٹر اور جناب مجیب الرحمان شامی صاحب نے بزرگانہ محبت کے ساتھ مشورہ دیا ہے کہ میں صرف اپنی صحت یابی کی طرف توجہ دوں ۔
میرے جسم پر چھ گولیوں نے نو زخم لگائے تھے ۔سات زخم بہتر ہو چکے اب صرف دو زخموں کی ڈریسنگ ہوتی ہے اور اندرونی چوٹوں کے علاج کیلئے فزیو تھراپی ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ میری اندرونی چوٹوں کو تیزی کے ساتھ بہتر کر رہا ہے لیکن میں سوچتا ہوں کہ پاکستان کی اندرونی چوٹوں کا علاج کرنے کیلئے کوئی مسیحا کہاں سے آئے گا ؟یہ شدید گرمی کا موسم ہے رات کو جب بجلی چلی جاتی ہے اور صرف پنکھے کی ہوا پر گزارا شروع ہوتا ہے تو جسم پسینے سے بھیگ جاتا ہے ۔ جب میں اپنے زخموں کو پسینے سے بچانے کیلئے کروٹیں لینے کی کوشش کرتا ہوں تو مجھے شمالی وزیرستان کے وہ ہزاروں لوگ یاد آتے ہیں جنہوں نے پچھلے کچھ دنوں میں اپنا گھر بار چھوڑ کر بنوں اور پشاور کی طرف ہجرت کی ۔ اس گرمی میں بے سروسامانی کے ساتھ یہ ہزاروں مظلوم پاکستانی کیسے گزارا کرتے ہونگے ؟
مجھے یاد ہے کہ 2005ء میں میران شاہ میں اتمان زئی اور داوڑ قبائل کے عمائدین کا ایک جرگہ منعقد ہوا مجھے اس جرگے میں شامل ہونے کا موقع ملا اور میں نے جرگے میں شامل عمائدین کے خیالات کیپٹل ٹاک کے ذریعہ پوری دنیا تک پہنچائے ۔ پھر مذاکرات کا ایک سلسلہ شروع اور آخر کار 2006ء میں دوامن معاہدوں کے راستے کھلے ۔ایک معاہدہ شمالی وزیرستان میں ہوگیا دوسرا باجوڑ میں ہونا تھا لیکن اس معاہدے کو امریکہ کے ڈرون حملے نے سبوتاژ کر دیا ۔ پچھلے کچھ عرصے سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ خود تو افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے لیکن پاکستان میں طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات پر تحفظات کا شکار ہے ۔ امریکہ نے حال ہی میں اپنے ایک اغواء شدہ فوجی سارجنٹ برگدال کے بدلے میں گوانتا ناموبے سے افغان طالبان کے پانچ بڑے رہنمائوں کو رہا کر دیا ہے ۔
امریکہ کی قید سے رہائی پانے والوں میں ہرات کے سابق گورنر ملا خیر اللہ خیرخواہ اور بلخ کے سابق گورنر ملا نور اللہ نوری بھی شامل ہیں جو رہائی کے بعد ایک سال تک قطر میں رہیں گے ۔ ظاہر ہے کہ طالبان کے یہ رہنما قطری حکام کے ساتھ مل کر امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کو آگے بڑھائیں گے لیکن دوسری طرف امریکی حکام شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے حق میں ہیں ۔ان کا خیال ہے کہ لاہور سے اغوا ہونے والا ایک بزرگ امریکی وارن وائن سٹائن شمالی وزیرستان میں قید ہے ۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ شمالی وزیرستان میں 2006ء میں طے پانے والا امن معاہدہ ٹوٹ چکا ہے ۔ اس امن معاہدے کے فریق طالبان کمانڈر حافظ گل بہادر نے اپنے علاقے میں حکومت کے خلاف مزاحمت کا اعلان کر دیا ہے ۔ شمالی وزیرستان کی آدھی آبادی صوبہ خیبر پختونخوا کی طرف بھاگ رہی ہے اور ایک بڑی تعداد افغانستان کی طرف ہجرت کر رہی ہے ۔ یاد رکھئے کہ افغانستان ہجرت کرنے والے افغان حکام اور پاکستانی ریاست کے خلاف مزاحمت کرنے والے پاکستانی طالبان کے رحم وکرم پر ہونگے ۔ اب افغان طالبان پاکستان کی مدد کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے ۔
افغان طالبان اپنے معاملات نمٹا رہے ہیں اور ہم اپنے معاملات بگاڑ رہے ہیں ۔ شمالی وزیرستان کی نئی صورتحال کے بطن سے پاکستانی ریاست کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کی ایک نئی نسل جنم لے گی ۔ پاکستان میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے سب سے بڑے علمبردار عمران خان تھے ۔ انکی توجہ انتخابی دھاندلیوں کی طرف زیادہ ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ طاقتور لوگوں کے دبائو کے باعث وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات پر زیادہ زور نہ دے پائیں لیکن وہ مت بھولیں کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے لوگوں نے تحریک انصاف کو امن کے نام پر ووٹ دیئے تھے۔ مذاکرات کے ذریعہ امن لانا بنیادی طور پر وفاقی حکومت کا کام تھا وفاقی حکومت اس سلسلے میں بری طرح ناکام ہو چکی لیکن شمالی وزیرستان سے ہجرت کرکے بنوں اور پشاور کی طرف آنے والےمظلوم پاکستانیوں کو سنبھالنا صوبائی اور وفاقی حکومتوں کا مشترکہ فریضہ ہے ۔
یہ دونوں آپس میں ضرور لڑیں لیکن شمالی وزیرستان کے مہاجرین کی دیکھ بھال کیلئے کوئی مشترکہ حکمت عملی ضرور بنائیں ۔ شمالی وزیرستان کے حالات کو نہ سنبھالا گیا تو پاکستانی معاشرے اور ریاست کیلئے اندرونی چوٹوں میں مزید اضافہ ہو گا ان اندرونی چوٹوں کا بروقت علاج نہ ہوا تو نقصان جسم کے صرف ایک عضو کا نہیں بلکہ پورے پاکستان کا ہو گا ۔
حامد میر"بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ

↧
The Koh-i-Noor Daimond
The Koh-i-Noor (the "Mountain of Light") is a diamond that was originally 793 carats when uncut.[1] Once the largest known diamond, it is now a 105.6 metric caratsdiamond, weighing 21.6 grammes in its most recent cut state. In 1852 Albert the Prince Consort had ordered it cut down from 186 carats. The Koh-i-Noor was mined in the state of Andhra Pradesh in India together with its double, the Darya-ye Noor (the "Sea of Light"). The diamond has belonged to many dynasties, including Kakatiyas[citation needed],Rajputs, Mughal, Afsharid, Durrani Empires, Sikh and British. It was seized as a spoil of war time and time again.[2]
In 1849, the diamond was forcibly taken from the Sikh Empire by the British East India Company and became part of the British Crown Jewels when Queen Victoria was proclaimed Empress of India in 1877. The diamond was traditionally known as "Kuh-e nur" in the 19th century after the British conquest of India. The diamond is currently set into the Crown of Queen Elizabeth and is on display at the Tower of London. The diamond originally came from a mine near the temple-town of Dilsuknagar, in the present-day [[Hyderabad] district, region, ofTelangana, India.[3][4]
Legend has it that the stone formed one eye of a Goddess idol installed by the Kakatiyas. The first confirmed historical mention of the Koh-i-Noor by an identifiable name dates from 1526. Babur mentions in his memoirs, the Babur-Nāmah, that the stone had belonged to an unnamed Afghan emperor who was compelled to yield his prized possession in 1294 to 'Alā'uddīnKhiljī. It was then owned by the Tughlaq Dynasty and Lodī Dynasty, and finally came into the possession of Bābur himself in 1526. He called the stone 'the Diamond of Bābur' at the time, although it had been called by other names before he seized it from Ibrāhīm Lodī.
When the Tughlaq dynasty replaced the Khiljī dynasty in 1320 AD, Ghiyāth al-Dīn Tughluq sent his commander Ulūgh Khān in 1323 to defeat the Kākatīya kingPrātaparuḑra. Ulūgh Khān's raid was repulsed but he returned in a month with a larger and determined army. The unprepared army of Kakātīya was defeated this time and the diamond was seized by the champion army of the Delhi Sultanate.[5][6]
Both Bābur and Humāyūn mention in their memoirs the origins of 'the Diamond of Bābur'. The last of the Tomaras, Man Singh Tomar, negotiated peace with Sikandar Lodī, Sultan of Delhi and became a vassal of the Delhi Sultanate. Humāyūn's son,Akbar, never kept the diamond with him and later only Shāh Jahān took it out of his treasury. Akbar's grandson, Shāh Jahān was overthrown by his own son, Aurangzēb.
Shah Jahan, famous for building the Taj Mahal in Agra, had the stone placed into his ornate Peacock Throne. His son, Aurangazēb, imprisoned his ailing father at nearby Agra Fort. While in the possession of Aurangazēb, it was cut by Hortenso Borgia, a Venetian lapidary, who was so clumsy that he reduced the weight of the stone to 186 carats.[7] Legend has it that he had the Koh-i-Noor positioned near a window so that Shāh Jahān could see the Tāj Mahal only by looking at its reflection in the stone. Aurangazēb later brought it to his capital Lahore and placed it in his own personal Bādshāhī Mosque. There it stayed until the invasion of Nādir Shāh of Iran in 1739 and the sacking of Agra and Delhi. Along with thePeacock Throne, he also carried off the Koh-i-Noor to Persia in 1739. It was allegedly Nādir Shāh who exclaimed Koh-i-Noor! when he finally managed to obtain the famous stone,[2] and this is how the stone gained its present name. There is no reference to this name before 1739.
The valuation of the Koh-i-Noor is given in the legend that one of Nādir Shāh's consorts supposedly said, "If a strong man should take five stones, and throw one north, one south, one east, and one west, and the last straight up into the air, and the space between filled with gold and gems, that would equal the value of the Koh-i-Noor." After the assassination of Nādir Shāh in 1747, the stone came into the hands of his general, Ahmad Shāh Durrānī of Afghanistan. In 1830, Shujāh Shāh Durrānī, the deposed ruler of Afghanistan, managed to flee with the diamond. He went to Lahore where Ranjīt Singh forced him to surrender it.[8]
↧
↧
Karachi Airport Attack - Sacrifices of Police & Security Forces ...
↧
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے... ...Karachi Airport Attack
↧
Economic Growth in Pakistan by Manzoor Ijaz
↧
Nawab Khair Bakhsh Marri

↧
↧
Operation, dialogue or third option by Ansar Abbasi
↧
.....دو جعلی صدارتی انتخابات کی ایک ہی کہانی....
مئی کے آخری اور جون کے پہلے ہفتے میں مصر اور شام میں صدارتی انتخابات کا ناٹک رچایا گیا اور دونوں کے نتائج غیر متوقع نہ تھے کیونکہ ان میں غاصب اور قاتل حکمرانوں کو بالترتیب 96 اور 88.1 فیصد ووٹوں سے ’’منتخب‘‘ کر لیا گیا۔ دونوں ممالک میں خونریز خانہ جنگی برپا ہے اور ریاست پر فوج کا غلبہ ہے۔ مصر اور شام کی ایک ہی کہانی ہے۔ دونوں ممالک کی افواج صہیونی ریاست سے 1948ء، 1966ء، 1973ء کی جنگوں میں شرمناک شکست سے دو چار ہوئیں۔ مصر نے تو صحرائے سینا کو غیر فوجی علاقہ تسلیم کر کے صہیونی ریاست سے دب کر 1979ء میں صلح کر لی جبکہ شام پر چالیس سال سے مسلط آمر باپ بیٹوں نے جولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کا قبضہ اور اس کا انضمام عملاً تسلیم کر لیا لیکن اپنی بزدلی چھپانے کے لیے ہنوز صہیونی ریاست سے مصر کی طرح صلح نامہ تو نہیں کیا لیکن اس سے خاموش معاہدے کے ذریعے اپنے اقتدار کے استحکام کی ضمانت حاصل کر لی۔ جبھی تو اسرائیل نے ان باغیوں پر حملے کیے جو بشار الاسد کا تختہ الٹنا چاہتے تھے۔
مصر اور شام کی بھگوڑی اور نکمی افواج صہیونی ریاست سے مک مکا کر کے اپنے ہی عوام پر ٹوٹ پڑی۔ جولائی میں منتخب ہونے والے صدر ڈاکٹر محمد مرسی کا تختہ الٹ کر مصری فوج کا سابق سربراہ اپنے پیشرو کرنلوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت اخوان المسلمین کو دہشت گرد قرار دے کر انہیں سیاسی عمل سے خارج کر دیا اور ڈاکٹر محمد مرسی پر سرکاری رقم کے غلط استعمال کا جعلی الزام لگا کر انہیں تین سال قید کی سزا دے دی جبکہ اخوان کے سربراہ مرشد بدیع سمیت اس تنظیم کے 1212 رہنماؤں اور حامیوں کو دو دو پیشیوں میں سزائے موت سنا دی جس پر انسانی حقوق کے خود ساختہ علمبردار باراک اوباما نے صرف اتنا ہی کہا کہ مصر کی عدالت کو انصاف کے تقاضے پورے کرنے چاہئیں جبکہ مصر کے جعلی صدارتی انتخاب میں ’’96فیصد ووٹوں‘‘ سے کامیاب اور اپنے منہ میاں مٹھو بننے والے فیلڈ مارشل السیسی کو مبارکباد دی۔
مصر کا صدارتی انتخاب ایک مذاق بن کر رہ گیا۔ جب رائے دہندگان انتخاب کے دن گھروں میں بیٹھے رہے تو مصر کی فوج اور مخبر ایجنسی حرکت میں آئی اور انتخاب کی مقررہ تاریخ میں توسیع کر دی گئی تا کہ رائے دہندگان وہاں جا کر اپنا ووٹ دیں لیکن جب اس کے باوجود بھی رائے دہندگان گھروں سے نہیں نکلے تو جعلی فیلڈمارشل کی مخبر ایجنسی کے گماشتے گھر گھر جا کر ووٹروں کو پولنگ سٹیشنوں پر لاتے اور ان کے ووٹ گزرواتے رہے۔ انتخاب سے قبل مصر کی جنتا نے آئین اور حکومت پر نکتہ چینی ممنوع قرار دے دی تھی۔ السیسی کے خلاف سابق فوجی آمر ناصر کا سویلین (Civilian) چیلا حمدین صباحی بھی صدارتی امیدوار کی حیثیت سے انتخابی میدان میں اتارا گیا تھا مگر ا س کی جماعت تانگہ پارٹی بن کر رہ گئی۔ اسے انتخابی جلسہ منعقد کرنے کا موقع ہی نہیں ملا کیونکہ اول تو اس کی نفری بہت کم تھی ، دوم یہ کہ وہ جہاں جلسہ کرنا چاہتا تھا وہاں پہلے سے مصری فوج سادہ لباسوں میں ملبوس شہر کے جرائم پیشہ عناصر کو لے کر جلسہ گاہ پر قبضہ کر لیتی تھی۔
حیرت تو صباحی اور برادعی پر ہے، انہیں منتخب دستور ساز اسمبلی کا وضع کردہ اور رائے شماری میں منظور شدہ آئین تو اس لیے نامنظور تھا کہ اس میں اسلامی شقیں تھیں لیکن فوجی آمر کا آئین قابل قبول تھا جس میں حکومت پر نکتہ چینی ممنوع قرار دے دی گئی تھی اور فوج کو اپنی عدالت میں ان شہریوں پر مقدمہ چلانے کا اختیار دیا گیا تھا جو بالواسطہ یا بلاواسطہ مصری فوج سے وابستہ ہوں۔ جیسا میں نے عرض کیا مصر کی فوج کا جنگ و جدل سے صرف میدان سے فرار ہونے یا ہتھیار ڈالنے تک کا تعلق رہا ہے جبکہ یہ ملک کے کاروبار پر قابض ہے۔ مصری فوجی شہریوں کو پینے کا پانی بند بوتلوں اور کھلے ٹینکروں کے ذریعے فراہم کرتے تھے اور صارفین سے اس کی گراں قیمت وصول کرتے تھے جبکہ شہریوں کو بلدیاتی اداروں کی جانب سے پانی مفت میں مہیا کیا جاتا تھا۔ اسی طرح فوجی بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں کے بھی مالک ہیں۔ یہ جائیداد کی خرید و فروخت کا کاروبار کرتے ہیں غرضیکہ یہ اندرون ملک منافع بخش کاروبار میں مصروف رہتے ہیں اور چور بازاری، سمگلنگ، منشیات و اسلحہ فروشی ان کی کمائی کا ذریعہ ہے۔ کیا اسے فوجی کہا جا سکتا ہے؟ اس پر مستزاد یہ کہ السیسی فیلڈ مارشل بن بیٹھا۔ کیا مصر میں یہ اعزاز شکست خوردہ، بد عنوان، غیر عسکری سرگرمیوں میں ملوث بھگوڑی فوج کو دیا جاتا ہے؟
البتہ ہمیں اس کی ایک وجہ سمجھ میں آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ 14 اگست 2013ء کو السیسی نے دھرنا دئے پر امن عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کا بے دردی سے قتل عام کیا اور دیکھتے دیکھتے 1400 افراد کی لاشیں بچھا دی۔ شاید السیسی کو اسی ’’کارنامے‘‘ کی بنا پر فیلڈ مارشل کا اعزاز ملا تھا۔ اسے خلیج کے رجواڑوں اور تلواڑوں نے بحالئ جمہوریت کی خلعت بھی عطا کی اور اوباما نے بھی بخشش دی۔ اس طرح وہ استعمار اور شاہ پرستوں کا ایجنٹ نکلا۔لیکن اسی اوباما اور اس کے قوالوں کے ٹولے (یعنی نیٹو قزاق ٹولے) نے 4 جون کو شام میں رچائے گئے صدارتی انتخابی ناٹک کو مضحکہ خیز اور ڈھونگ قرا ردیا۔ اور صحیح کیا لیکن کوئی ان سے پوچھے کہ دونوں (مصر اور شام) کے صدارتی انتخابات میں کیا فرق تھا کہ مغربی استعمار ایک کو جائز اور دوسرے کو ناجائز قرار دیتا ہے؟ ظاہر ہے کہ بشار الاسد کا صدر منتخب ہونا ویسا ہی ہے جیسے السیسی کا منتخب ہونا۔ دونوں قانون اور انسانیت کے مجرم ہیں جنہیں قصر صدر کی بجائے مجرم کی حیثیت سے بین الاقوامی تعزیراتی عدالت (177) کے کٹہرے میں کھڑا ہونا چاہیے۔
شام کے صدارتی انتخاب میں ملک کی چالیس فیصد آبادی ووٹ نہیں دے سکی جبکہ بشار الاسد کی فضائیہ اور اس کے توپخانے شہریوں پر بمباری اور گولے باری کر رہے ہیں۔ اس تین سالہ خانہ جنگی میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار افراد مارے جا چکے ہیں جبکہ پچیس لاکھ ترک وطن کرنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔ ایسے میں انتخاب رچانا قوم کے ساتھ ایک سنگین مذاق نہیں تو اور کیا ہے؟لیکن امریکہ اور یورپی یونین کی جسارت ملاحظہ کیجیے کہ مصر کے صدارتی انتخاب کو سند عطا کرتے ہیں اور شام کے صدارتی انتخاب کو ڈھونگ قرار دیتے ہیں۔ السیسی کے حق حکمرانی کو تسلیم کرتے ہیں جبکہ بشار الاسد کے بارے میں برملا کہتے ہیں کہ وہ حق حکمرانی سے محروم ہو چکا ہے۔یہی مغرب کا جمہوری نظام ہے جس کے بارے میں شاعر مشرق حکیم الامت علامہ اقبالؒ پہلے ہی کہہ چکے ہیں:
ہے وہی سازِ کہن یورپ کا جمہوری نظامجس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصریدیو استبداد جمہوری قبا میں پائے پوشتو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
↧
Fifa Brazil Football World Cup : Most expensive ever!
↧
Karachi Airport Attack and Government Hypocrisy by Ayesha Gazi
↧
↧
عراقی وزیر اعظم اور داعش کی کامیابیاں.........
عراقی وزیر اعظم نوری المالکی کی فرقہ واریت پر مبنی داخلی پالیسی رواں ہفتے اس وقت بری طرح ناکام ہوئی جب مسلکی بنیادوں پر منظم کردہ عراقی فوج دولت عراق و شام 'داعش'کے جنگجووں کا سامنے ایک ہی آن میں ڈھیر ہو گئی۔
عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل، صدام حسین کے آبائی علاقے تکریت اور تیل کی دولت سے مالا مال کرکوک میں عراقی فوجی یونٹوں کے سقوط نے سنہ 2003ء میں بغداد کے صدر دروازے پر صدام حسین فوج کے سقوط کی یاد تازہ کر دی۔
سنہ 2003ء میں عراقی فوج روس کے زنگ آلود اسلحہ سے لیس تھی اور چند ہی سال قبل ہمسایہ ملک ایران اور کویت سے دو بڑی جنگیں لڑنے کی وجہ سے بے حال تھی۔ صدام حسین کی فوج کا مقابلہ دنیا کی طاقتور ترین فوج کے ساتھ تھا، اس لئے اس کی شکست پر بہت سوں کو زیادہ حیرانی نہیں ہوئی۔
نوری المالکی کی فوج صدام حسین کی فوج سے مختلف ہے۔ اس کے پاس امریکی ساختہ اپاچی ہیلی کاپٹرز، گن شپ، ایف سولہ لڑاکا جہاز، ابرم اور ہمویز ٹینکوں سمیت جدید امریکی اسلحہ کی بھرمار ہے۔ قابض امریکی حکام نے عراقی فوج کی تعمیر نو پر تقریباً سولہ ارب ڈالر جھونک دیئے۔ واشنگٹن کو یہ امید تھی کہ یہ فوج جدید عراق کا مضبوط سہارا بنے گی۔
خطیر رقم خرچ کر کے تیار کی جانے والی نوری المالکی کی فوج مسلح جہادیوں کا ذرا بھی مقابلہ نہیں کر سکی کیونکہ داعش کے جنگجووں نے بہت کم ہی عرصے میں ایک کے بعد دوسرے اہم عراقی شہروں پر قبضہ کر لیا۔
منگل کی صبح سرکاری فوجیوں نے شمالی عراق کا شہر موصل چھوڑ دیا۔ جاتے ہوئے وہ اپنی گاڑیاں، گولہ بارود حتی کہ وردیاں تک چھوڑ گئے۔ فوج کے متعدد سرکردہ کمانڈر مبینہ طور پر کردوں کے زیر کنڑول علاقوں کی جانب فرار ہوتے دیکھے گئے۔
ویڈیو فوٹیج میں داعش کے جنگجو عراقی فوج کی متروکہ گاڑیوں میں موصل کی سڑکوں پر گشت کرتے نظر آئے۔
نوری المالکی نے اپنی فوجی یونٹوں کی شکست کو 'سازش'کا نتیجہ قرار دیا حالانکہ عراقی فوج انہی کے ہم مسلک شیعہ اہلکاروں پر مشتمل تھی۔ غیر جانبدار مبصرین کا کہنا ہے کہ نوری المالکی متاثرہ شہروں میں فوجی سقوط کے خود ذمہ دار ہیں کیونکہ انہوں نے فوج کو کسی نظم و ضبط اور ٹھوس فوجی نظریئے کی بنیاد پر استوار کرنے کے بجائے اس میں مسلکی بنیادوں پر بھرتی میں عافیت جانی۔
حواس باختہ نوری المالکی نے بدھ کے روز ملک میں ہونے والی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ "القاعدہ اور داعش کی افرادی قوت سرکاری فوج اور پولیس کے مقابلے میں انتہائی کم تھی، لیکن پھر کیا ہوا اور کیونکر ہوا؟ کیسے کچھ فوجی یونٹ آنا فانا ہتھیار ڈالتے گئے؟ مجھے اس کی وجہ معلوم ہے، تاہم آج ہم اس اقدام کرنے والوں کو ذمہ دار نہیں ٹھرائیں گے۔"
وزیر اعظم نوری المالکی نے دوسرا سانس لئے بغیر کہا کہ "فوج، پولیس اور سیکیورٹی فورسز ان کے [داعش] کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہیں، تاہم وہ ایک دھوکے اور سازش کا شکار ہوئے۔ ان شاء اللہ، ہم اپنی طاقت، عوامی عزم اور عراقی قوم کے ارادے کو بروئے کار لاتے ہوئے داعش کا خاتمہ کریں گے۔"
ناکام ریاست
بغداد میں مقیم سیاسی تجریہ کار عدنان حسین قدہم نے 'العربیہ'کو بتایا کہ فوجی ناکامی اس کمزور سیاسی عمل کا نتیجہ تھی جسے نوری المالکی نے سنہ 2006ء سے اختیار کر رکھا تھا۔
عدنان حسین کے بقول: "مسلکی بنیادوں پر اختیارات کی تقسیم نے معاشرے کے مختلف شعبوں کے درمیان رسہ کشی کی صورتحال پیدا کر دی تھی۔"انہوں نے مزید کہا کہ مسلکی بنیادوں پرکھڑی کی گئی فوج میں کرپشن بہت زیادہ سرایت کر چکی تھی۔ فوجی کمانڈروں کا تعین صلاحیت کے بجائے ان کی مسلکی وابستگی کو مدنظر رکھ کر کیا جاتا تھا۔ اس طرح تشکیل پانے والے ادارے سے آپ موثر کارکردگی کی توقع کیونکر رکھ سکتے ہیں۔"
شیعہ رہنما مقتدا الصدر کی سیاسی تحریک کے قریب سمجھے جانے والے تجزیہ کار حیدر موسوی نے صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ "زیادہ تر فوج اہل تشیع پر مشتمل تھی جس سے دنیا کو یہی تاثر ملتا تھا کہ ایک عرب ملک میں یہی مسلک اکثریت کا حامل ہے۔"
حیدر موسوی کے مطابق فوج میں زیادہ تر افراد مادی ضرورتوں کی تکمیل کی خاطر بھرتی جاتے تھے، یہ افراد امریکی قیادت میں عراق پر حملے کے بعد پیدا ہونے والی معاشی بدحالی سے بری طرح متاثر تھے۔ معاشی آسودگی فراہم کرنے کے لئے انہیں فوج میں بھرتی کیا جاتا۔"
نوری المالکی نے اپنی نشری تقریر میں اعلان کیا تھا کہ جن علاقوں کو داعش کے جنگجووں نے اپنے کنڑول میں لے لیا ہے وہاں وہ باقاعدہ فوج کے مدد کے لئے 'رضاکاروں'کی فوج بھی تیار کریں گے۔
موسوی نے خدشہ ظاہر کیا کہ اس طرح نوری المالکی شیعہ مسلکی مذہبی رضاکاروں پر مشتمل ایک متوازی فوج بنا لیں گے جو ان کی دانست میں القاعدہ نواز دولت اسلامی عراق و شام 'داعش'کے جنگجووں کی بیخ کنی کر سکے گی۔
انہوں نے کہا کہ اگر اگلے چند ہفتے یہی صورتحال برقرار رہتی ہے تو شیعہ مسلک دینی جماعتیں سنی مسلک داعش جنگجووں کے زیر قبضہ علاقوں میں سیکیورٹی فورسز کی مدد کے لئے اپنی ملیشیا بھیج سکتے ہیں۔
خانہ جنگی؟
اردن میں مقیم سیاسی تجزبہ کار احمد العبیاد نے خبردار کیا ہے کہ عراق میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر کسی بھی قسم کی موبلائزیشن سے ملک کئی برسوں تک نہ ختم ہونے والی خانہ جنگی میں الجھ جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ داعش کے زیر قبضہ علاقوں میں اگر مقامی عناصر ان کے ہمنوا بن گئے تو اس کے بعد مرکزی حکومت کو وہاں اپنی رٹ نافذ کرنے میں دشواری ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال عراق کی 'نرم تقسیم'کے اس امریکی خواب کی تکمیل ہے کہ جس کا تانا بانا امریکی نائب صدر جو بائیڈن نے سنہ 2007 میں بنا تھا۔
یہ منصوبہ سنہ 1995ء میں بوسینیا کی تقسیم کے منصوبے سے ہم آہنگ دکھائی دیتا ہے جس کا مقصد عراق کو خود مختار کرد، سنی اور شیعہ علاقوں میں تقسیم کرنا ہے، جنہیں بغداد کی مرکزی حکومت یکجا رکھے۔
مصطفی اجبیلی
↧
Impact of cyclone Nanauk reaches Pakistan's coasts
↧
عالمی مالیاتی فنڈ اور مستقبل کے پاکستان کی معاشی تصویر.........
نوازشریف حکومت کو اقتدار میں آئے ایک سال مکمل ہوگیا ہے۔ عام انتخابات کے بعد عالمی مالیاتی ادارے نے پاکستان کے سیاسی، معاشی اور سماجی حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک پیپر ورک تیار کیا تھا اور اسے حکومت کی معاشی ٹیم کے ساتھ بھی شیئر کیا گیا تھا۔ آئی ایم ایف نے عالمی این جی اوز، قوم پرست رہنمائوں اور جیو پولیٹکل امور کے ماہرین سے کیے جانے والے انٹرویوز کو بنیاد بناکر اپنی رائے قائم کی تھی کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلاء کے بعد سندھ، بلوچستان اور فاٹا میں شورش بڑھ سکتی ہے۔ متحدہ کی قیادت کے خلاف مقدمات اور تفتیش کی ٹائمنگ اور فاٹا کی صورت حال کو سمجھنے کے لیے آئی ایم ایف کی یہ رپورٹ بہت مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ یقینی طور پر آئی ایم ایف مستقبل کے حالات کو مدنظر رکھ کر اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے پاکستان کو معاشی مدد فراہم کرے گا۔
وفاقی حکومت نے اگلے مالی سال کے لیے 39 کھرب روپے مالیت کا بجٹ پیش کیا ہے۔ گزشتہ سال کا خسارہ شامل کرلیا جائے تو بجٹ کا کُل خسارہ 12 کھرب روپے تک پہنچ جاتا ہے۔ دفاعی اخراجات نکال کر ملک میں ترقیاتی اور غیر ترقیاتی منصوبوں کے لیے حکومت کے پاس کُل 18 کھرب روپے دستیاب ہوتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں حکومت نے دو ارب یورو بانڈز عالمی مارکیٹ میں فروخت کیے ہیں، اس پر چھ فی صد منافع کی یقین دہانی اور ضمانت دی گئی ہے۔ یہ بانڈز امریکی آئل کمپنیوں نے خریدے ہیں اور اس کا منافع آنے والی حکومت پانچ سال کے بعد دینے کی پابند ہوگی۔
یہ وہ معاشی تصویر ہے جسے سامنے رکھ کر عالمی مالیاتی فنڈ مستقبل میں پاکستان کے ساتھ اپنے معاملات طے کرے گا۔ وہ اپنے ہر فیصلے سے قبل سندھ، بلوچستان اور فاٹا کی صورت حال کا نقشہ ایک پالیسی کی حیثیت سے اپنے سامنے رکھے گا۔ جس ملک کی معیشت کا سارا انحصار غیر ملکی قرضوں پر ہو وہ کیسے خودمختار پالیسیاں مرتب کرسکتا ہے؟ وفاقی بجٹ پر یہی تبصرہ کیا جاسکتا ہے کہ اس بجٹ کی ہر ہر سطر مبہم ہے۔ جوں جوں وقت گزرے گا، عمل درآمد کے مرحلے میں پتا چلے گا کہ سرجن نے کہاں کہاں نشتر لگائے ہیں۔ بجٹ تیار کرتے وقت وزیر خزانہ کے ذہن میں ایک ہی بات تھی کہ پاکستان کس طرح جی ایس پلس اسٹیٹس سے فائدہ اٹھاسکتا ہے۔ اسی لیے حالیہ بجٹ میں حکومت نے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو غیر معمولی مراعات دی ہیں۔
حکومت کے اپنے اعدادو شمار کے مطابق ملک میں نصف آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ لیکن بجٹ میں یہ تعداد محض 12 فی صد بتائی گئی ہے۔ یہ وہ اہم منظرنامہ ہے جس میں قومی اسمبلی میں وفاقی بجٹ پر عام بحث شروع ہوچکی ہے۔ قومی اسمبلی میں پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں ہیں۔ دونوں میں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ہم آہنگی نہیں ہے۔ لہٰذا پارلیمنٹ کے اندر حکومت کے سامنے کوئی چیلنج نہیں ہے۔ پیپلزپارٹی کے قائدِ حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے ریکارڈ طویل تقریر کی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کی رائے ہے کہ وہ بجٹ کا پوسٹ مارٹم نہیں کرسکے۔ قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے بجٹ پر بحث کا آغاز کیا ہے۔ بظاہر تو وہ فرینڈلی اپوزیشن لیڈر دکھائی دیتے ہیں تاہم بجٹ پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے انہوں نے نرم لفظوں میں بہت سخت باتیں کی ہیں۔ تحریک انصاف نے دس نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حکومت سادگی اختیار کرے اور پاکستانیوں کی بیرون ملک رقوم تین سال کے اندر اندر پاکستان لانے کا بندوبست کرے، صوبوں کے ترقیاتی فنڈز مرکز کے منصوبوں میں شامل نہ کیے جائیں۔
آئینی لحاظ سے بجٹ منظور کرانا ہر حکومت کے لیے بہت اہم ہوتا ہے۔ جو حکومت بجٹ منظور نہ کرواسکے وہ خودبخود برطرف ہوجاتی ہے اور اس سے حقِ حکومت چھن جاتا ہے۔ اٹھارویں ترمیم میں یہ بات طے کی گئی تھی کہ حکومت بجٹ سازی کے وقت وزارتوں کے بجائے پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹیوں سے رائے لینے کی پابند ہوگی۔ لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی یقین دہانی کرائی تھی کہ حکومت اپریل میں بجٹ سے متعلق قائمہ کمیٹیوں سے رائے لے گی۔ لیکن ایوان میں کرائی گئی یقین دہانی کے باوجود یہ آئینی تقاضا پورا نہیں کیا گیا۔ لیکن یہ اور بہت سے دیگر پہلو نظرانداز کیے جانے کے باوجود بجٹ پارلیمنٹ سے منظور ہوجائے گا۔
بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فی صد اضافے کا اعلان ہوا ہے اور اس فیصلے کا اطلاق پارلیمنٹ کے ارکان کی تنخواہوں پر بھی ہوگا۔ پرویزمشرف دور میں قانون منظور کیا گیا تھا کہ جس شرح سے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھائی جائیں گی اسی شرح سے ارکانِ پارلیمنٹ کی تنخواہیں بھی بڑھ جائیں گی۔ بجٹ میں وفاقی وزراء کی تنخواہوں میں بھی دس فیصد اضافہ کیا گیا ہے، حالانکہ فنانس بل 2014ء میں سرکاری ملازمین کی بنیادی تنخواہ میں، جبکہ وزراء اور ارکان پارلیمنٹ کی مجموعی تنخواہ میں دس فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں حقیقی اضافہ میڈیکل الائونس و کنوینس الائونس میں 10اور 5 فیصد اضافے کو شامل کرکے بھی پانچ فیصد تک ہوگا، جب کہ اس کے برعکس وزراء اور ارکانِ پارلیمنٹ کو مجموعی تنخواہ کا دس فیصد اضافہ ملے گا۔ رکن پارلیمنٹ کی اِس وقت تنخواہ 70 ہزار روپے ہے اور ہر رکن قومی اسمبلی کو یوٹیلٹی بل دینے کے بعد 51 ہزار روپے ملتے ہیں۔ خیبر پختون خوا میں حکومت نے ارکان صوبائی اسمبلی کی تنخواہوں میں ڈیڑھ سو فی صد تک اضافہ کیا ہے۔
اسلام آباد میں ایک اور بڑی پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ وفاقی حکومت نے تحریک انصاف اور حکومت مخالف سیاسی اتحادوں سے نمٹنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ متحدہ کے قائد الطاف حسین کو بھی حکومت نے سیاسی کمک اس لیے پہنچائی کہ متحدہ کہیں حکومت مخالف کیمپ میں نہ چلی جائے۔ ایسا ہونے کی صورت میں کراچی متاثر ہوگا اور غیر ملکی سرمایہ کاری رک جائے گی۔ مجوزہ سیاسی اتحادوں کی نرسری کی آکسیجن کاٹنے کے لیے پارلیمنٹ کی تمام سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں سے رابطوں کے لیے وزیراعظم نے احسن اقبال، خواجہ سعد رفیق اور عرفان صد یقی پر مشتمل 3رکنی کمیٹی کو ٹاسک دیا ہے، جس نے پہلا رابطہ جماعت اسلامی سے کیا ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق، سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ اور میاں اسلم سے ان کی ملاقات ہوئی ہے۔ حکومت کا اگلا پڑائو اے این پی ہے۔ سینیٹر حاجی عدیل سے بھی رابطہ کیا گیا ہے۔
پی ٹی آئی انتخابی عمل میں اصلاحات لانے کے لیے سڑکوں پر احتجاج کررہی ہے اور وہ حالات کو آہستہ آہستہ وسط مدتی انتخابات کی جانب لے جانا چاہتی ہے، لیکن حکومت مخالف سیاسی اتحاد بن نہیں پا رہا کیونکہ اس اتحاد میں سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ اتحاد کی لیڈر شپ کس کے پاس ہوگی؟ طاہرالقادری خود آگے آنے کے بجائے اپنے صاحب زادوں کو سیاست میں لارہے ہیں۔ عوامی تحریک کی اطلاع کے مطابق ڈاکٹر طاہرالقادری کے فیس بک پیج پر مداحوں کی تعداد 20لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے، ان میں نوجوان غالب اکثریت میں ہیں۔ طاہرالقادری نے اسلام آباد میں ایک کروڑ نمازی لانے کا دعویٰ کیا ہے۔ عوامی تحریک یہ تو بتائے ان میں ’’نمازی‘‘ کتنے ہیں؟ اور دوسرا یہ کہ اس کی بنیاد پر پاکستان آنے کا فیصلہ کرنے سے قبل پرویزمشرف سے لازمی مشورہ کرلیا جائے۔
حال ہی میںسیکریٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد خان نے دوسرا پانچ سالہ اسٹرے ٹیجک پلان جاری کیا ہے جس کے مطابق آئندہ انتخابات میں ووٹنگ الیکٹرونک طریقے سے کی جائے گی، اور انتخابات سے قبل مردم شماری کو بھی ضروری قرار دیا گیا ہے تاکہ نئی حلقہ بندیاں کی جاسکیں۔ الیکشن کمیشن نے پانچ سالہ اسٹرے ٹیجک پلان کے لیے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں سے آراء مانگی تھیں لیکن جماعت اسلامی کے سوا کسی دوسری جماعت نے الیکشن کمیشن کو تجاویز نہیں بھجوائیں۔ تحریک انصاف تو الیکشن کمیشن کے ارکان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہی ہے جن کی معیاد 2016ء میں ختم ہورہی ہے۔ حکومت نے انتخابی اصلاحات کے لیے پارلیمنٹ کی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
اسی ہفتے اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان میں امریکی سی آئی اے کے سابق اسٹیشن ہیڈ جوناتھ بینکس اور ان کے قانونی مشیر جان ایروز کے خلاف ڈرون حملے پر قتل کا مقدمہ درج کرنے کا حکم بھی سنایا ہے۔ ایک شہری کریم خان کی طرف سے رٹ دائر کی گئی تھی کہ ڈرون حملے میں اس کا بیٹا زین اللہ اور بھائی آصف کریم جاں بحق ہوگئے تھے، دونوں پُرامن شہری تھے اور کسی تنظیم سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا اور نہ ہی کسی مقدمہ میں مطلوب تھے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان کے خلاف جنگ کرنے کے الزامات میں مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کا یہ حکم ریاست کی رٹ اور آئین کی حکمرانی کا مظہر ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا انتظامیہ اس حکم پر عمل کرے گی یا اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے گا؟
ابھی حال ہی میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف چین کے دورے پر گئے جہاں چینی حکام سے ان کی ملاقاتوں میں ایسٹ ترکستان موومنٹ کے معاملے پر بھی بات چیت ہوئی ہے۔ چینی خبر رساں ایجنسی ژنہوا کے مطابق چین کے مرکزی فوجی کمیشن کے نائب سربراہ یافین چنگ لانگ نے بیجنگ میں جنرل راحیل شریف سے ملاقات میں یہ معاملہ اٹھایا، اور چین نے ایسٹ ترکستان موومنٹ کے خلاف پاکستان کے تعاون کو سراہا۔ ای ٹی آئی ایم کو دونوں ملکوں کا مشترکہ دشمن قرار دیا گیا ہے۔
گزشتہ ہفتے پیمرا نے بھی انگڑائی لی ہے۔ پیمرا کے قائم مقام چیئرمین پرویز راٹھور کی سربراہی میں اجلاس ہوا جس میں جیو ٹی وی چینل کو آئی ایس آئی کے خلاف مہم پر ایک کروڑ روپے جرمانہ اور اس کا لائسنس پندرہ روز تک معطل کردیا گیا ہے۔ اس فیصلے پر وزیر دفاع خواجہ آصف نے رد عمل دیا کہ پیمرا کے فیصلے سے وزارتِ دفاع مطمئن نہیں ہے اور اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی جائے گی۔ اس سے قبل عسکری ذرائع نے رد عمل دیا تھا کہ ’’ہم حالتِ جنگ میں ہیں، ہمارے خلاف مہم جوئی کے مقاصد کیا تھے، یہ عزائم سامنے آنے چاہئیں، جیو کو ملنے والی سزا کم اور تاخیر سے دی گئی ہے، لیکن ہمارے خلاف مہم جوئی کا حساب کون دے گا؟‘‘ وزارتِ دفاع کا ردعمل ظاہر کرتا ہے کہ جیو کی مشکل ابھی ختم نہیں ہوئی۔ اس معاملے کے حل کے لیے سی پی این ای، پی ایف یو جے اور ایپنک کی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو مستقبل میں ایسی صورت حال سے بچنے کے لیے ایک نیا ضابطہ اخلاق مرتب کررہی ہے۔ یہ سب کچھ دکھاوا ہے، اصل فریق دو ہی ہیں، (1) میر شکیل الرحمن اور(2) وزارتِ دفاع۔ ان میں سے ایک فریق کا مطالبہ ہے کہ اسے پچاس ارب روپے دیے جائیں، دوسرے کا مطالبہ ہے کہ ایک کروڑ جرمانہ کم سزا ہے۔ جیو انتظامیہ نے خود ایک ہفتہ کے لیے چینل بند کرنے اور معافی مانگنے کی پیش کش کی تھی لیکن میر شکیل الرحمن اعتماد کھو چکے ہیں اس لیے معاملہ حل نہیں ہورہا۔ جیو انتظامیہ چاہتی ہے کہ وہ رمضان المبارک سے قبل معاملہ طے کرلے تاکہ اسے رمضان المبارک کی نشریات کے لیے اسپانسر شپ مل سکے، لیکن اس کی یہ خواہش پوری ہوتی نظر نہیں آرہی۔ اس کھیل میں یہ سوال بھی ابھر رہا ہے کہ یہ نجی ٹی وی چینلز اس معاشرے کی اخلاقی اور سماجی روایات کے ساتھ جو کھلواڑ کررہے ہیں، اس کی تلافی کے مطالبے کے ساتھ کون آگے آئے گا؟
میاں منیر احمد
↧