↧
مغربی طاقتیں، عراق اور ہم........
↧
غربت اور بھوک.........
مزدوروں کے چہروں پر غربت تھی‘ بھوک نہیں‘ میں سڑک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک گیا‘ فٹ پاتھ پر ان کے اوزار پڑے تھے‘ ٹول باکس بھی تھے‘ کُھرپے بھی‘ گینتیاں بھی‘ ہتھوڑے بھی اور کسّیاں بھی‘ یہ لوگ سڑک کی تین فٹ اونچی دیوار پر بیٹھے تھے‘ یہ جینز اور شرٹس میں ملبوس تھے‘ وہ قہوہ اور سگریٹ پی رہے تھے اور چند مزدور تاش‘ شطرنج اور کیرم بورڈ کھیل رہے تھے‘ یہ جارجیا کے مزدور تھے اور یہ تبلیسی شہر کی ایک سڑک کا منظر تھا‘ یہ ہمارے مزدوروں کی طرح فٹ پاتھ پر بیٹھ جاتے ہیں‘ لوگ گاڑیوں میں آتے ہیں۔
ان کا انٹرویو کرتے ہیں‘ انھیں کام بتاتے ہیں اور پھر گاڑی میں بٹھا کر گھر‘ دفتر یا فیکٹری لے جاتے ہیں‘ ہمارے فٹ پاتھوں پر روزانہ ایسے سیکڑوں ہزاروں مزدور‘ مستری‘ مکینک اور پلمبر آ کر بیٹھتے ہیں‘ لوگ آتے ہیں اور انھیں ساتھ لے جاتے ہیں‘ یہ منظر جارجیا اور پاکستان دونوں ملکوں میں مشترک ہیں لیکن جارجیا کے مزدوروں اور ہمارے مزدوروں میں ایک فرق ہے‘ وہ لوگ صرف غریب دکھائی دیتے ہیں‘ ان کے چہروں پر بھوک نہیں ہوتی جب کہ ہمارے مزدوروں کے چہروں پر بھوک کا لیپ ہوتا ہے‘ ہمارے مزدور دو کلو میٹر سے بھوکے دکھائی دیتے ہیں‘ یہ فرق کیوں ہے؟ اس کی محض ایک وجہ ہے‘ جارجیا کے لوگ خوراک کے معاملے میں خود کفیل ہیں‘ یہ صدیوں سے ’’کھاچا پوری‘‘ بنا اور کھا رہے ہیں۔
کھاچا پوری میں پنیر کی آدھ انچ موٹی تہہ ہوتی ہے‘ ایک کھاچا پوری دو سے تین لوگوں کے لیے کافی ہوتی ہے‘ یہ لوگ قہوہ‘ چائے یا کولڈ ڈرنک کے ساتھ کھاچا پوری کھاتے ہیں اور پورا دن گزار لیتے ہیں‘ ملک میں سیکڑوں ہزاروں تنور ہیں‘ ان تنوروں پر کھاچا پوری ملتی ہیں‘ آپ خریدیں اور دن گزار لیں‘ لوگ خاندان کی ضرورت کے مطابق گھروں میں سبزی اور پھل بھی اگاتے ہیں‘ یہ لوگ ایک آدھ گائے بھی رکھ لیتے ہیں اور یوں یہ خوراک کے معاملے میں خودکفیل ہوتے ہیں‘ میں نے اکثر گھروں میں ایک دو مرلے کا ’’فارم ہاؤس‘‘ دیکھا‘ یہ لوگ اس ’’فارم ہاؤس‘‘ میں سبزیاں بھی اگاتے ہیں‘ پھلوں کے درخت بھی لگاتے ہیں اور مرغیاں بھی پالتے ہیں۔
جارجیا میں شاید ہی کوئی گھر ہو گا جس میں انگور کی بیل نہ ہو یا گھر کے لوگ گھر سے سیب‘ اخروٹ‘ بادام‘ آڑو‘ چیری اور آلو بخارہ حاصل نہ کر رہے ہوں‘ اس ’’ فارم ہاؤس‘‘ میں کاشت کاری کا کام گھر کی خواتین اور بچے سرانجام دیتے ہیں‘ یہ لوگ گھر کی ضرورت کے لیے اچار‘ چٹنیاں‘ مربے‘ جیم اور پنیر خود تیار کرتے ہیں‘ یہ لوگ اگرچھوٹے گھروں میں رہتے ہوں تو کرائے پر زمین لے کر سبزیاں اور پھل اگا لیتے ہیں اور یہ بھی اگر ممکن نہ ہو تو یہ گھر کے باہر یا صحن میں کاشت کاری کر لیتے ہیں جب کہ ہمارے لوگ‘ ہمارے مزدور عمر بھر خوراک کی محتاجی میں مبتلا رہتے ہیں‘ یہ آٹا‘ گھی اور چینی خریدنے کے لیے مزدوری کرتے ہیں اور ہمارے اس رویے نے ہمارے چہرے پر بھوک مل دی ہے‘ ہم سب کی آنکھوں میں بھوک درج ہو چکی ہے۔
ہم ہمیشہ ایسے نہیں تھے‘ ہمارے ملک میں تیس سال قبل بھوک نہیں تھی‘ صرف غربت تھی اور اگر غربت میں بھوک نہ ہو تو غربت قابل برداشت ہو جاتی ہے‘ غریب شخص اس وقت مجرم‘ درندہ اور ظالم بنتا ہے جب اس کی غربت میں بھوک شامل ہو جاتی ہے‘ ہمارے ملک کی 70 فیصد آبادی آج بھی دیہات میں رہتی ہے‘ یہ لوگ 30 سال پہلے تک خوراک کے معاملے میں خود کفیل تھے‘ ہمارے دیہات کے ہر گھر میں بھینس‘ گائے‘ بکری‘ مرغی اور گدھا ہوتا تھا‘ خاندان بھینس اور گائے سے دودھ‘ دہی‘ مکھن‘ لسی‘ بالائی اور گھی کی ضرورت پوری کر لیتا تھا‘ بکری اور مرغی‘ انڈے اور گوشت کا مسئلہ حل کر دیتی تھی‘ گدھا باربرداری کے کام آتا تھا اور رہ گیا اناج تو یہ لوگ سبزیاں اور گندم بھی اپنی اگا تے تھے۔
گاؤں کے ہر گھر میں گندم اسٹور کرنے کا مٹی‘ لوہے یا لکڑی کا ’’پڑہولا‘‘ ہوتا تھا‘ یہ لوگ چولہے میں لکڑیاں اور اُپلے جلاتے تھے‘ واش روم کھیت ہوتے تھے اور نہانے دھونے کا فریضہ ٹیوب ویلوں اور کنوؤں پر ادا ہوتا تھا چنانچہ یہ لوگ خوراک اور رہائش دونوں معاملوں میں خود کفیل تھے‘ گھر کا ایک آدھ فرد چھوٹی بڑی نوکری کر لیتا تھا‘ وہ فوج میں بھرتی ہو جاتا تھا‘ ڈاک خانے‘ فیکٹری یا ریلوے میں ملازم ہو جاتا تھا یا پھر راج مستریوں کے ساتھ لگ جاتا تھا‘ اس شخص کی آمدنی خاندان کی بچت ہوتی تھی‘ بہ بچت شادی بیاہ کے کام آتی تھی یا بیماری اور حادثوں کے اخراجات پورے کر دیتی تھی یا پھر گھر میں نئے کمرے ڈالنے کے کام آتی تھی۔
جارجیا کی کھاچا پوری کی طرح ہمارے دیہات اور شہروں کی بھی کوئی نہ کوئی مخصوص خوراک ہوتی تھی‘ گاؤں کے لوگ تنوری روٹی پر مکھن لگا کر یا پھر اچار رکھ کر دن گزار لیتے تھے‘ لسی پورے گاؤں کا مشروب تھی‘ آپ جہاں جاتے‘ آپ کو وہاں لسی کا پیالہ ضرور ملتا‘ آپ اگر معزز مہمان ہیں تو آپ کو دودھ کا پیالہ عنایت ہو جاتا تھا‘ یہ دودھ مکمل غذا ہوتی تھی‘ شہروں میں کلچے‘ نان اور دال روٹی ملتی تھی‘ پورے شہر میں سیکڑوں تنور ہوتے تھے‘ آپ کسی تنور سے ایک نان اور دال لیتے اور پورا دن گزار لیتے تھے‘ ہم نے اپنی سماجی بے وقوفی سے صدیوں میں بنا یہ سسٹم ختم کر دیا‘ گاؤں میں فلیش سسٹم آیا‘ اس نے پورے گاؤں کا پانی آلودہ کر دیا‘ لوگوں نے بھینس‘ گائے‘ بکری اور مرغی رکھنا بھی بند کر دی۔
گاؤں کے لوگ گندم‘ دالیں اور ترکاری بھی خرید کر استعمال کرنے لگے‘ گڑ اور شکر کی جگہ چینی آ گئی‘ لسی ختم ہو گئی اور اس کی جگہ چائے‘ کولڈ ڈرنکس اور ڈبے کے جوس آ گئے‘ دیسی گھی کی جگہ بناسپتی گھی استعمال ہونے لگا‘ لکڑی اور اُپلوں کی جگہ گیس کے چولہے آ گئے‘ مسواک کی جگہ ٹوتھ برش آیا اور تیل کی جگہ شیمپو استعمال ہونے لگا ‘ یہ تمام چیزیں بازار سے ملتی ہیں اور انسان جب ایک بار بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے بازار چلا جائے تو پھر اس کی غربت میں بھوک شامل ہوتے دیر نہیں لگاتی اور ہماری دیہی آبادی کے ساتھ یہی ہوا‘ یہ لوگ تیس برسوں میں غذائی خود مختاری سے بھوک کی محتاجی میں چلے گئے‘ یہ لوگ اب روز ہتھوڑی اور کَسّی لے کر فٹ پاتھوں پر بیٹھتے ہیں اور ہر گزرنے والے کو للچائی نظروں سے دیکھتے ہیں۔
ہماری بربادی میں ہماری سماجی روایات کے انتقال نے بھی اہم کردار ادا کیا‘ میں نے بچپن میں گاؤں میں درجنوں شاندار روایات دیکھی تھیں‘ یہ روایات آہستہ آہستہ مر گئیں‘ ان کے انتقال نے عام آدمی کے معاشی بحران میں اضافہ کر دیا مثلاً گاؤں کی ہر بچی کی شادی پورا گاؤں مل کر کیا کرتا تھا‘ پورا گاؤں ایک ایک چیز گفٹ کرتا تھا اور یہ چیزیں مل کر جہیز بن جاتی تھیں‘ بارات کے لیے کھانا پورا گاؤں مل کر بناتا تھا‘ باراتیوں کی رہائش کا بندوبست پورا گاؤں کرتا تھا مثلاً مہمان پورے گاؤں کے مہمان ہوتے تھے۔
یہ رہتے کسی کے گھر میں تھے‘ ناشتہ کسی کے گھر سے آتا تھا‘ لنچ دوسرے گھر اور ڈنر تیسرے گھر میں ہوتا تھا‘ مثلاً کسی کا انتقال پورے گاؤں کی ’’میت‘‘ کہلاتا تھا۔ قل تک کا کھانا لوگ مل کر دیتے تھے‘ مثلاً گندم کی کٹائی پورا گاؤں مل کر کرتا تھا‘ مثلاً لڑائی میں پورا گاؤں اپنے ’’بندے‘‘ کے ساتھ کھڑا ہو تا تھا‘ تھانے کچہری میں پورا گاؤں جاتا تھا‘ مثلاً قتل تک کے جھگڑے پنچایت میں نبٹائے جاتے تھے‘ مثلاً گاؤں میں اجتماعی بیٹھک ہوتی تھی‘ اسے ’’دارا‘‘ کہا جاتا تھا‘ لوگ شام کے وقت اس دارے میں بیٹھ جاتے تھے‘ مثلاً گاؤں کا کوئی شخص بیمار ہو جاتا تھا تو پورا گاؤں اس کے ’’سرہانے‘‘ پیسے رکھ کر جاتا تھا‘ یہ پیسے پوچھ‘ سرعت یا عیادت کہلاتے تھے۔
یہ رقم مریض کے علاج پر خرچ ہوتی تھی‘ مثلاً بچہ پیدا ہوتا تھا تو گاؤں کے لوگ بچے کو پیسے دے کر جاتے تھے‘ یہ پیسے زچہ اور بچہ دونوں کی بحالی پر خرچ ہوتے تھے‘ مثلاً خوراک کا بارٹر سسٹم نافذ تھا‘ آپ گندم دے کر چنے لے لیتے تھے اور مسور دے کر گُڑ حاصل کر لیتے تھے‘ مثلاً آپ نائی کو گندم دے کر حجامت کرا لیتے تھے‘ بکری دے کر موچی سے جوتے لے لیتے تھے اور گنے دے کر درزی سے کپڑے سلا لیتے تھے‘ مثلاً کوئی بچی روٹھ کر میکے آ جاتی تھی تو پورا گاؤں ڈنڈے لے کر سسرالی گاؤں پہنچ جاتا تھا‘ مثلاً لوگ ضرورت کے وقت دوسروں سے برتن‘ کپڑے‘ جوتے‘ زیورات اور جانور ادھار لے لیتے تھے اور مثلاً قدرتی آفتوں یعنی سیلاب‘ زلزلے اور آندھیوں کے بعد پورا گاؤں مل کر گری ہوئی دیواریں اور چھتیں بنا دیتا تھا‘ یہ ’’سوشل ارینج منٹ‘‘ غربت اور بھوک کے درمیان بہت بڑی خلیج تھا۔ یہ بندوبست سیکڑوں ہزاروں سال کے سماجی تجربے کے بعد بنا تھا۔
یہ غریب کو بھوکا نہیں رہنے دیتا تھا لیکن ہم نے یہ سماجی بندوبست بھی ختم کر دیا۔ ہم نے نیا نظام بنائے بغیر پرانا نظام توڑ دیا‘ ہم نے اپنے لوگوں کو لسی‘ نیوندرے‘ دارے‘ پوچھ اور بارٹر سسٹم چھوڑنے سے قبل یہ نہیں بتایا کارپوریٹ نظام میں لوگ اہم نہیں ہوتے‘ لوگوں کا ہنر‘ لوگوں کی پرفارمنس اور لوگوں کی آؤٹ پٹ اہم ہوتی ہے‘ آپ اگر مائیکرو سافٹ کو کما کر دے رہے ہیں تو بل گیٹس آپ کو جھک کر سلام کرے گا لیکن آپ اگر کمپنی کے پرافٹ میں اضافہ نہیں کر رہے تو پھر آپ خواہ بل گیٹس کے والد محترم ہی کیوں نہ ہوں۔
آپ کمپنی کی دیواروں کے سائے تک میں نہیں بیٹھ سکیں گے۔ آپ کا مقدر بھوک‘ غربت‘ بیماری اور فٹ پاتھ ہوں گے‘ ہماری آبادی کا ساٹھ فیصد حصہ آج اسی کرب سے گزر رہا ہے‘ یہ روز آنکھوں میں بھوک کا سرمہ لگا کر ہر گزرتی گاڑی کو امید اور نفرت کی نظروں سے دیکھتا ہے اور یہ نفرت اور یہ امید اس وقت تک قائم رہے گی جب تک مزدور آٹے اور روٹی کے لیے کام کرتا رہے گا‘ یہ جب تک غربت اور بھوک کے درمیان موجود فرق کو نہیں سمجھے گا۔
جاوید چوہدری
↧
↧
Tribute to Nasrullah Shaji
↧
تب نیرو موٹر وے بنا رہا تھا.........
پاکستان کو نائن الیون کے بعد سے اب تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اقتصادی ، سماجی اور عسکری اعتبار سے لگ بھگ اسی ارب ڈالر کا ٹیکہ لگ چکا ہے۔ اس عرصے میں تقریباً دس لاکھ لوگ اندرونی طور پر در بدر ہو چکے ہیں۔ فاٹا ، کراچی اور بلوچستان کی شکل میں ریاست کو بیک وقت تین جنگوں کا سامنا ہے۔ان جنگوں اور ان کے اثرات نے ساٹھ ہزار سے زائد لوگوں کو نگل لیا ہے۔
جوں جوں حفاظتی دیواریں اونچی ہو رہی ہیں توں توں عدم تحفظ بڑھ رہا ہے۔ کسی کو کچھ نہیں معلوم کہ اگلے لمحے کس کے ساتھ کہاں ، کیسی واردات ہونے والی ہے۔جو جرنیل دو ہزار چار پانچ تک یہ کہتے رہے کہ دہشت گردوں کی تعداد چھ سو سے زیادہ نہیں وہ آج اس سوال سے ہی کنی کترا جاتے ہیں کہ اس وقت کتنے لوگ اور کتنی تنظیمیں ریاست سے برسرِ پیکار اور اینٹ سے اینٹ بجانے کے درپے ہیں۔
مگر ایسا بھی نہیں کہ ریاست چلانے والے اپنے قومی و منصبی فرائض سے غافل ہیں۔وہ ہر وقت ملک کو درپیش مسائل کے بارے میں غوروفکر کرتے رہتے ہیں، راتوں کو اٹھ اٹھ کے ٹہلتے ہیں ، رومال سے ماتھے کا پسینہ پونچھتے رہتے ہیں ، گاہے ماہے آسمانوں کی طرف تکتے ہیں ، سرد آہ بھی بھر لیتے ہیں، باہمی غفلت اور غلطیوں کا نوٹس بھی لیتے رہتے ہیں اور ایک دوسرے کو سمجھاتے بھی رہتے ہیں کہ کوئی ہور گل کرو ، اے تے روز دا سیاپا اے۔
زمہ دارانِ ریاست کو اچھے سے معلوم ہے کہ دہشت گردی ریاست کو آہستہ آہستہ چبا چبا کر نگل رہی ہے، مگر انہوں نے امید کا دامن کبھی نہیں چھوڑا۔
"فوری طور پر ایوانِ وزیرِ اعظم، دفتر اور لان کی مرمت و آرائش، دو نئی بلٹ پروف گاڑیاں اور چھ جدید سونگھاری کتوں کو امپورٹ کرنے میں اضافی ایک سو اکہتر ملین روپے خرچ کرنے پڑگئے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ ایک عوام پرست وزیرِاعظم نے اپنی ذات کے لیے تو نہیں کیا۔کل کلاں اگر اس عمارت میں ممکنہ اماراتِ اسلامی پاکستان کے امیر صاحب قیام کرتے ہیں تو انہیں بھی تو کچھ راحت ملے گی۔"
اگر وہ سالانہ پچاس لاکھ بچوں کو پہلی جماعت میں داخل نہیں کرسکتے تو پریشانی کیوں؟ کیا وہ ہائر ایجوکیشن کمیشن اور یونیورسٹیوں کے لیے سالانہ چونسٹھ ارب روپے مختص نہیں کر رہے؟
اگر وہ سالانہ بیس لاکھ نئے لڑکے لڑکیوں کو روزگار دینے میں بے بس ہیں تو کون سا ظلم ہورہا ہے؟ کیا وہ ساڑھے پانچ لاکھ نوجوانوں کو وزیرِ اعظم یوتھ پروگرام کے تحت بزنس لون ، قرضِ حسنہ ، ہنر مندی کی تربیت اور فیسوں کی معافی کے لیے بیس ارب روپے کی امداد نہیں دے رہے؟
اگر وہ اعتراف کر رہے ہیں کہ ملک کی آدھی آبادی یعنی دس کروڑ نفوس دو ڈالر روزانہ سے بھی کم پر زندگی کاٹ رہے ہیں تو اس کی بھی تو تعریف کیجیے کہ وہ تریپن لاکھ خاندانوں کو نیشنل انکم سپورٹ پروگرام کے تحت ڈیڑھ ہزار روپے ماہانہ دے رہے ہیں تاکہ ان کے تیس دن سہولت سے کٹ جائیں۔
اگر آپ کو شکوہ ہے کہ کم از کم گیارہ ہزار روپے کی تنخواہ کی سرکاری حد میں کسی خاندان کا گذارہ نہیں ہوسکتا تو یہ بھی تو دیکھیے کہ اس وقت ہر پاکستانی کی فی کس آمدنی تیرہ سو چھیاسی ڈالر ہے۔اور یہ تیرہ سو چھیاسی ڈالر امانتاً حکومت کے پاس پڑے ہیں جنہیں مناسب وقت پر لوٹا دیا جائے گا۔
اور کون کہتا ہے کہ والیانِ ریاست انسدادِ دہشت گردی کی اہمیت سے غافل ہیں۔ان کی پہلی ترجیح تو یہی ہے کہ افہام و تفہیم کے ذریعے کوئی حل نکل آئے۔اعتماد کی فضا پیدا کرنے کے لیے میڈیا کی گردن میں بھی پٹہ ڈال دیا گیا ہے۔اگر اب بھی دہشت گردوں نے عقل کے ناخن نہ لیے تو پھر متبادل حکمتِ عملی بھی تیار ہے۔
مثلاً ملک میں توانائی کے بحران پر تیزی سے قابو پانے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام ہورہا ہے تا کہ دہشت گرد اندھیرے میں کسی سخت شے سے ٹھوکر نہ کھا جائیں۔گوادر تا سنکیانگ کاریڈور اور لاہور تا کراچی موٹر وے کی ڈیزائننگ شروع ہوچکی ہے تا کہ امارات ِاسلامی پاکستان کی ممکنہ قیادت کا فور وھیلر قافلہ ایک سو بیس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ان موٹر ویز پر کروز کرسکے۔
جب میاں صاحب پچھلے برس تیسری بار قصرِ وزیرِ اعظم تشریف لائے تو انہیں یہ دیکھ کے بہت رنج ہوا کہ جاتی حکومت سرکاری املاک کے دروازے، کھڑکیاں اور پنکھے بھی ساتھ لے گئی اور لان میں کچرے کے ڈھیر چھوڑ گئی۔اور تو اور وزیرِ اعظم کے زیرِ استعمال گاڑیوں کی سیٹوں کا چمڑا تک اترا ہوا تھا اور وزیرِ اعظم کی حفاظت کے لیے جو تربیت یافتہ کتے موجود تھے ناکافی غذائیت کے سبب کاٹنا تو رہا ایک طرف وہ تو اپنی بھونک تک سے محروم ہوچکے تھے۔ چنانچہ فوری طور پر ایوانِ وزیرِ اعظم، دفتر اور لان کی مرمت و آرائش، دو نئی بلٹ پروف گاڑیاں اور چھ جدید سونگھاری کتوں کو امپورٹ کرنے میں اضافی ایک سو اکہتر ملین روپے خرچ کرنے پڑگئے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ ایک عوام پرست وزیرِاعظم نے اپنی ذات کے لیے تو نہیں کیا۔کل کلاں اگر اس عمارت میں ممکنہ اماراتِ اسلامی پاکستان کے امیر صاحب قیام کرتے ہیں تو انہیں بھی تو کچھ راحت ملے گی۔
رہی بات کہ ہوائی اڈوں کی ٹوٹی خاردار تاروں کو کب بدلا جائےگا، پولیس تھانوں کے باتھ روم کب ٹھیک ہوں گے، ایئرپورٹ سیکورٹی فورس وغیرہ کے فرسودہ ہتھیاروں کا کیا بنےگا، ناقص کیمروں کی خرید کب بند ہوگی، جدید انٹیلی جینس نظام کی تشکیل کا خرچہ اور تربیت کا بار کون اور کب اٹھائےگا، انسدادِ دہشت گردی کے لیے ایک جدید، جامع قانونی و عسکری حکمتِ عملی تشکیل پاکر کب نافذ ہو کر نتائج سامنے لائے گی؟
تو اب ہر بات کا ٹھیکہ ریاست نے تو نہیں لے رکھا۔ کچھ وہ بھی تو سوچیں کہ جن کے سبب پاکستان اس دلدل میں پھنسا ہے۔اگر سارے وسائل اور پوری طاقت دہشت گردی کے خاتمے پر ہی لگا دی گئی تو شمسی توانائی سے بجلی تم پیدا کروگے، موٹر وے تمہارا باپ بنا کے دے گا، ایوانِ وزیرِ اعظم کی گھاس کاٹنے کیا تم آؤ گے ۔۔۔ واہ جی واہ ۔ چل دوڑ یہاں سے، ڈُو مور کا بچہ۔
↧
Iraq, Afghanistan and Pakistan by Ansar Abbasi
↧
↧
Iraq, Afghanistan and Pakistan by Hamid Mir
↧
Can Waziristan operation bring peace in Pakistan?
↧
Media and Waziristan operation by Dr. Mujahid Mansoori
↧
Tahir-ul-Qadri
Muhammad Tahir-ul-Qadri (born 19 February 1951) is a Pakistanipolitician, former law professor and SufiIslamic scholar.[3][4] He was a former professor of international constitutional law at the University of the Punjab.[5] Qadri is also the founding chairman of Minhaj-ul-Quran International.
Early years
Qadri learned from a number of classical authorities in Islamic sciences, including Abu al-Barakat Ahmad al-Qadri al-Alwari.[citation needed]
Qadri studied law at the University of the Punjab in Lahore, where he graduated with an LLB in 1974, gaining a Gold Medal for his academic performances.[6] Following a period of legal practice as an advocate, he taught law at the University of the Punjab from 1978 to 1983 and then gained his PhD[7] in Islamic Law (Punishments in Islam, their Classification and Philosophy) in 1986 from the same university. His supervisors were Bashir Ahmad Siddiqui (‘Ulum al-Islamiyya) and Javaid Iqbal.[8][9] He was appointed as aprofessor of law at the University of Punjab, where he taught British, US and Islamic constitutional law.[citation needed]
Political career
On 25 May 1989, Qadri founded a political party, Pakistan Awami Tehreek (PAT). This party aims to introduce the culture of democracy, promote economic stability, and improve the state of human rights, justice, and women's roles in Pakistan. The PAT also aims to remove corruption from Pakistani politics. Its official website contains its formal manifesto.[10] In 1990, Qadri participated in the national election. In 1991, PAT and TNFJ (Tehreek-e-Nifaz-e-Fiqh-e-Jafria A shia political group), now known as Tehreek-e-Jafria,[11] introduced the idea of political working relationship. From 1989 to 1993, Qadri continuously worked as an opposition leader.[12]
He was also elected as a Member of the National Assembly for his constituency. On 29 November 2004, Qadri announced his resignation as a Member of the National Assembly.[13] Qadri views an Islamic state as a Muslim-majority country which respects freedom, the rule of law, global human rights (including religious freedom), social welfare, women's rights and the rights of minorities.[14] He also claims that the Constitution of Medina"declared the state of Madinah as a political unit". He also mentions that the Constitution declared the "indivisible composition of the Muslim nation (Ummah)".[15] With respect to the Constitution of Medina, Qadri says: "This was the constitution, which provided the guarantee of fundamental human rights in our history." He believes that "a constitution is a man-made law and by no means it can be declared superior to a God-made law."[15]
Pakistan's blasphemy law
Qadri apparently made contradictory statements regarding his role in the making of Pakistan's blasphemy Law. In an Urdu-language speech he said: "I would like to lift the veil that this blasphemy law ... it was I who had this law made, that no matter who commits blasphemy, whether Muslim or Non-Muslim, man or woman, Christian or Jew, whoever commits blasphemy should be killed like a dog!" Yet in another video he says: "Whatever the Law of blasphemy is, is not applicable on non Muslims, is not applicable on Jews, Christians, and any other non-Muslims. I was never a part of shaping this law in the parliament made by Zia-ul-Haq.".[16][17][18][19][20] After the disclosure of this apparent contradiction in the Danish Media, the Integration and social affairs minister, Karen Hækkerup, pulled out of a conference on religious radicalism after she discovered that Qadri helped to fashion Pakistan’s anti-blasphemy law. She said she would not share a stage with a controversial Muslim scholar who helped to create that law.[21]
Long March
In December 2012, after living for seven years in Toronto, Canada, Qadri returned to Pakistan and initiated a political campaign which called for a "democratic revolution"[this quote needs a citation] through electoral reforms. Qadri called for a "million-men" march in Islamabad to protest against the government's corruption.[22] On 14 January 2013, crowds marched down the city's main avenue. Thousands of people pledged to sit-in until their demands were met.[23] When he started the long march from Lahore about 15,000 people were with him.[24] He told the rally in front of parliament: "There is no Parliament; there is a group of looters, thieves and dacoits [bandits] ... Our lawmakers are the lawbreakers."[25] After four days of sit-in, the Government and Qadri signed an agreement called the Islamabad Long March Declaration, which promises electoral reforms and increased political transparency.[26] Although Qadri called for a "million-men" march, the estimated total present for the sit-in in Islamabad was 25,000 according to the government.[24]
Critics have charged that the protests were a ploy by the Pakistan Armed Forces to delay elections and weaken the influence of the civilian government, citing Qadri's close ties to the military, dual nationality and foreign sources of funding.[27][28] Lawyers for the Supreme Court of Pakistan claimed that Qadri's demands are unfeasible because they conflict with the Constitution of Pakistan.[29] The Tribune reported on 17 February 2013, that Qadri seemed to have capitulated on most of his demands in the Islamabad Long March Declaration.[30]
↧
↧
Minhaj-ul-Quran
Minhaj-ul-Quran International is an international non-governmental organization (NGO) founded by Muhammad Tahir-ul-Qadri in 1981 in Lahore, Pakistan.[1] It has a long-term strategic vision to promote religious moderation, effective and sound education, inter-faith dialogue and harmony.[2] It has expanded to 100 countries around the globe.[3] Its emphasis is improving the social, cultural and religious condition, enlightening the masses with the knowledge of their rights and duties and presenting a realistic, rational and scientific picture of Islam.
The headquarters of Minhaj-ul-Quran International was inaugurated in 1987 by Tahir Allauddin Al-Qadri Al-Gillani who is regarded as the organization's spiritual founder.[4] The objective of Minhaj-ul-Quran inEurope and the West in general is to create harmony in societies between different cultural, ethnic and religious communities through social interaction, interfaith dialogue and spreading the messages of toleration, respect for others and the benefits of integration. . It is the first organisation of its kind that has initiated interfaith dialogues with religious minorities.[5] Qadri is the Chairman of the Muslim Christian Dialogue Forum, where Christian bishops and Muslim clerics and scholars work side by side.
Ideology
The ideology of Minahj-ul-Quran International is multidimensional and relates to the spiritual, moral, educational and social progress of human beings in the light of a modern and moderate interpretation of the Quran and the sunnah of the Islamic prophetMuhammad. It promotes religious moderation, peace and interfaith harmony. In the west it has specialised in tackling extremism and radicalism amongst young Muslims in the hope of reducing the evil of terrorism.[12]
Qadri says he felt the need to establish Minhaj-ul-Quran because, after analysing the work and efforts of contemporary Muslim organisations, he concluded that they all were working on very limited level, none of them had a comprehensive global vision and programme and they lacked co-ordination and co-operation. However, the message of the Prophet Muhammad was comprehensive and global and therefore the various outstanding characteristics of Minhaj-ul-Quran International are believed to lead to a revival of the Prophet Muhammad's message.[13] These characteristics include:
Comprehensiveness of the message;
Purity of the message;
Chain of transmission of the message from Prophet Muhammad to its founder;
Modern and scientific interpretation of message;
Emphasis on the revival of spiritual, moral, educational and social values;
Emphasis on revival of the message.
Achievements
The educational network of Minhaj-ul-Quran is well known in Pakistan. It runs around one thousand educational institutes, including libraries in Pakistan and a university based in Lahore which was chartered in 2005.[14]
It also runs a successful charity, the Minhaj Welfare Foundation (MWF), that has a global network and aims to provide emergency aid, health care, welfare support and education to the poor and those affected by natural disasters.[15] It is a UK registered charity under the Charity Commission.
Minhaj-ul-Quran has continuously aimed to promote the tolerant, inclusive, peaceful and balanced message of Sufism through the modern and scientific interpretation of Islam, and has distributed over 300,000 books of Tahir-ul-Qadri in the last 25 years. It has produced and distributed millions of video cassettes, CDs and DVDs with lectures of its founder on almost every concept of Islam worldwide.[16]
Minhaj-ul-Quran holds one of the largest annual Itikaf gatherings during the month of Ramadan with approximately 37,000 people sitting congregational Itikaf in 2007. It holds the largest Laylat ul Qadr night event on the 27th Ramadan with millions of attendees.[17][18]
Minhaj-ul-Quran also has revived the concept of celebrating the birthday of the Prophet Muhammad in the Ummah. The largest annual International Mawlid an-Nabi (Milad un Nabi) event takes place in the grounds of Minar-e-Pakistan, Lahore, on the 12th of Rabi' al-awwal and attracts people from all over Pakistan and aboard. The highlight of the event is the speech by Tahir-ul-Qadri, live via satellite from Canada where he is in self-imposed exile, followed by recitation of salutations upon the Prophet Muhammad.[19] In 2008, due to the limitation of the space at Minar-e-Pakistan, it plans to decentralise the event and will hold events in 5 different cities and broadcast the speech live to all the cities.
On 3 December 2005 Minhaj-ul-Quran established a full-time institution called Gosha-e-Durood where any individual can apply to sit for reciting salutations on the Prophet Muhammad. In the last two years trillions of salutations have been recited. A building dedicated to this purpose with Mawlana Rumi style minarets is under construction.[20]
It also airs the main lectures of its founder on the private international TV channel QTV (ARY), which enables millions of people abroad to listen.[21]
In the past decade Minhaj-ul-Quran International has successfully established various resources to promote the peaceful and balanced message of Islam using the internet.
Minhaj-ul-Quran International is the first organisation of its kind that has initiated interfaith dialogues with religious minorities in Pakistan. Its founder is the Chairman of the 'Muslim Christian Dialogue Forum' to highlight and promote their citizen rights.[22][23][24]
The United Nations Economic and Social Council (ECOSOC) has formally recognised and granted a 'Special Consultative Status' to Minhaj-ul-Quran International due to its services in promoting peace, tolerance, interfaith harmony and education, tackling extremism and terrorism, engaging with young Muslims for religious moderation, promoting women’s rights, and providing social welfare and promotion of human rights.[25]
In September 2011, Minhaj-ul-Quran organised a major "Peace for Humanity" conference at Wembley Arena in London at which, under the auspices of Tahir-ul-Qadri, its 12,000 attendees announced a global declaration denouncing racism, interfaith intolerance, extremism and terrorism.[26] Minhaj-ul-Quran strategist Joel Hayward[27] wrote the declaration text for Qadri[28] and was its second formal signatory after Qadri himself. Notably, senior Al-Azhar University leaders and dignitaries then signed it before Minhaj-ul-Quran opened it up via the internet for public signing.[29] They aim to get one million signatures within a year.[26] The London Declaration for Global Peace and Resistance against Extremism is intended as an interfaith document which unequivocally condemns all extremism and terrorism, ”because at the heart of all religions is a belief in the sanctity of the lives of the innocent.”[30] The Declaration adds: “The indiscriminate nature of terrorism, which has in recent years killed far more civilians and other non-combatants than it has combatants, is un-Islamic, un-Judaic, un-Christian and it is indeed incompatible with the true teachings of all faiths.”[30] The London Declaration also “unequivocally condemn[s] anti-Semitism (including when sometimes it is disingenuously clothed as anti-Zionism), Islamophobia (including when it is sometimes disingenuously dressed up as patriotism) and all other forms of racism and xenophobia.”[30] Some extremists have already tried to prevent the success of the Declaration via cyber-attacks on the website hosting it.[31]
Minhaj-ul-Quran leader Dr Tahir-ul Qadri announced the largest March in modern times in Pakistan; a march to take place on 14th Jan 2013 at 'Tahrir Square' Islamabad. The agenda of long march is to voice elimination of feudalism, introduction of real democracy, rule of law and implementation of constitution.[32]
Forums and sub-organisations
Muslim Youth League (MYL)
Minhaj-ul-Quran Women's League
Pakistan Awami Tehrik (PAT)
Pakistan Awami Lawyers Movement (PALM)
Muslim Christian Dialogue Forum
Farid-e-Millat Research Institute (FMRi)
↧
Clashes Between Police and Tahir-ul-Qadri Supporters in Lahore
↧
ہر طرف گلو بٹ.........
کراچی میں دن کا اختتام اگر اوسطاً آٹھ لوگوں کی غیر فطری پرتشدد موت پر نہ ہو تو مقامی باشندے گھبرا جاتے ہیں کہ یا خدا خیر آج کا دن پرامن کیسے گزر گیا ضرور کل کچھ نہ کچھ بڑا ہونے والا ہے۔شاید کراچی کی خونی فضا میں مسلسل سانس لینے کے سبب لاہور میں ہونے والے پرتشدد واقعات پر میں خود کو اتنا افسردہ محسوس نہیں کر پا رہا جتنا باقی ملک بالعموم اور سوشل میڈیا بالخصوص ہے۔ البتہ مجھ جیسے کراچویوں کے لیے لاہور کے خونی واقعات کے تناظر میں اگر کوئی شے نئی اور حیران کن ہے تو وہ ہے ظہورِ گلو بٹ۔ویسے تو میرے شہر میں ایک سے ایک گلو پڑا ہے اور میرے صوبے میں گلو گورنمنٹ آف مٹیاری نامی ڈاکو بھی گزرا ہے، پر کمی ہے تو گلو بٹ لاہوری جیسے کی۔جو کام سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی پانچ پانچ سو فلموں میں ہنہناتے گھوڑوں پر گنڈاسے لہراتے نہ کر سکے وہ تنِ تنہا گلو بٹ نے صرف ایک ڈنڈے سے سینکڑوں پولیس والوں اور بیسیوں کیمروں کے سامنے ٹیک ٹو دیے بغیر کر ڈالا۔پچھلے دو روز سے پھولدار قمیض اور پتلون میں ملبوس گلو بٹ نے مقامی میڈیا کی ریٹنگ اتنی اوپر پہنچا دی ہے کہ شیخ رشید جیسے ٹی وی فن کاروں کو بھی تشویش ہو چلی ہے۔ کیمرے کی آنکھ ہر زاویے سے گلو کو ہی دکھا رہی ہے۔پہلے اس شیر جوان نے منہاج القرآن کے دفتر کے باہر کھڑے بیسیوں مسلح پولیس والوں کے ایک افسر سے پرتپاک مصافحہ کیا۔ پھر ایک پولیس ٹولی کے ساتھ گپ شپ فرمائی۔ بعد ازاں جہادی جوش اور جہازی ڈنڈے سے پارک ہوئی کاروں کے شیشے توڑنے شروع کر دیے۔اس بے مثال کارنامے کے بعد ہمارے ہیرو نے ایک پولیس افسر سے گلے مل کر شاباشی لی اور زخمی گاڑیوں کی جانب دیکھتے ہوئے ہلکا سا فاتحانہ رقص فرمایا۔قبلہ گلو بٹ کا شجرہ"جتنے کیمرے اتنی باتیں۔ کسی کا دعویٰ ہے کہ آپ سینئر پولیس ٹاؤٹ ہیں۔ کسی کو گمان ہے کہ آپ درمیانے درجے کے نوسر باز ہیں اور کوئی آپ کو مسلم لیگ نواز کا جانثار کارکن بتا رہا ہے۔ جب ہر چینل پر گلو بٹ، گلو بٹ کی جے جے کار مچی تو بادلِ نخواستہ مقامی انتظامیہ بھی ’ کون ہے گلو، کہاں ہے گلو، یہاں ہے گلو، وہاں ہے گلو‘ کے غوغے میں شریک ہوگئی"پھر دیگر پولیس والوں کی معیت میں ایک ہکا بکا کولڈ ڈرنک والے کا ڈیپ فریزر کھول کے سوڈے کی ٹھنڈی ٹھار بوتلیں لہراتے ہوئے اجتماعی جشنِ فتح کا خم لنڈھایا اور پھر کیمروں کے سامنے سے فخریہ انداز میں نوکیلی مونچھوں کو تاؤ دیتے دیتے جنابِ گلو بٹ استہزائیہ چال چلتے آگے بڑھ گئے اور افق پارگم ہوگئے۔اس دوران میڈیائی تیتروں نے قبلہ گلو بٹ کا شجرہ کھود نکالا۔ جتنے کیمرے اتنی باتیں۔ کسی کا دعویٰ ہے کہ آپ سینیئر پولیس ٹاؤٹ ہیں۔ کسی کو گمان ہے کہ آپ درمیانے درجے کے نوسر باز ہیں اور کوئی آپ کو مسلم لیگ نواز کا جانثار کارکن بتا رہا ہے۔جب ہر چینل پر گلو بٹ، گلو بٹ کی جے جے کار مچی تو بادلِ نخواستہ مقامی انتظامیہ بھی ’ کون ہے گلو، کہاں ہے گلو، یہاں ہے گلو، وہاں ہے گلو‘ کے غوغے میں شریک ہوگئی۔واقعے کے ٹھیک چوبیس گھنٹے بعد کلفیہ لباس میں ملبوس جنابِ گلو بٹ نے ایک مقامی تھانے میں نہایت اطمینان سے ایسےگرفتاری پیش کی جیسے وزرائے کرام زیرِ مونچھ ترسیلی مسکراہٹ سجائے بیواؤں کو سلائی مشین پیش کرتے ہیں۔اعلیٰ حضرت بٹ صاحب اس سمے پولیس سجنوں کی تحویل میں ایک بے جان ایف آئی آر کی چادر اوڑھے گئے دن کی تھکن اتار رہے ہیں اور نشریاتی گرد و غبار بیٹھنے کے منتظر ہیں۔اس مرحلے پر آپ میرا گریبان پکڑ سکتے ہیں کہ اے سفاک لکھاری تجھے آٹھ لاشیں اور سو سے زائد زخمی کیوں نظر نہیں آرہے، صرف گلو پر ہی کیوں تیرے قلم کی نب اٹک گئی ہے۔عرض یہ ہے کہ لوگوں کا کیا ہے، وہ تو مرتے ہی رہتے ہیں اور مرتے ہی رہیں گے، پر آدمی جیئے تو گلو شیر کی طرح جیئے۔ دھڑلے کے ساتھ چاروں خانے چوکس ۔۔۔قانونی و غیر قانونی، اخلاقی و غیر اخلاقی بکواسیات میں الجھے بغیر۔بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ دراصل یہ گلو پرور نظام ہی ایک گلو بٹ نے دوسرے گلو بٹ کی مدد سے تیسرے گلو بٹ کے لیے بنایا تا کہ وہ اسے چوتھے گلو بٹ کے حوالے کر سکے۔ اچھی بات یہ ہے کہ ہر نیا گلو بٹ ہر پرانے گلو بٹ سے بڑا گلو بٹ ثابت ہوا۔ارے کس کس گلو بٹ کی بات کیجیے گا حضور۔ اس گلو بٹ کی جس نے ڈنڈے مار مار کے اس ملک کی گاڑی کی چھت بٹھا دی یا اس گلو بٹ کی جس نے آئین کی اوریجنل ونڈ سکرین کرچی کرچی کر دی۔یا وہ گلو بٹ جس نے ڈنڈے پر نظریے کا تیل مل کے اسے سائلنسر پائپ میں دے دیا یا پھر وہ گلو بٹ جس نے وفاقی گاڑی کو اینٹوں پر کھڑا کر کے معاشی انجن، جمالیاتی وائپرز، سماجی ڈیش بورڈ، نفسیاتی بیک مرر اور وسائل کی ہیڈ لائٹس بڑے بڑے خلیجی و غیر خلیجی گلو بٹس کو لوہے کے بھاؤ تلوا دیں اور کیا اس وقت ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہزاروں گلو بٹ اپنے سے مختلف انسانوں کے سرگاڑیاں سمجھ کے نہیں توڑ رہے۔فیض صاحب نے بہت پہلے ہی بھانپ لیا تھا کہ،گلو میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلےجب آپ ایسے ایسے چیتےگلو بٹوں کے بٹ سہہ رہے ہیں تو پھر لاہور کے ایک معمولی سے گلو بٹ کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہیں۔ تئیس تاریخ کو ایک اور گلو بٹ معافی چاہتا ہوں، گلوِ اعظم لینڈ کرنے والے ہیں۔لگ پتہ جائے گا۔
↧
گلو بٹ کی حکمرانی..........
↧
↧
World's most expensive stamp sets new record
A one-cent postage stamp from a 19th-century British colony in South America has become the world’s most valuable stamp – again.
Sotheby’s says the 1856 British Guiana One-Cent Magenta sold at auction in New York for $9.5m.
It is the fourth time it has broken the auction record for a single stamp in its long history.
The stamp was expected to bring $10 -20m. Sotheby’s says the buyer wished to remain anonymous.
The one inch by one and a quarter-inch One-Cent Magenta has not been on public view since 1986. It is the only major stamp absent from the British Royal Family’s private Royal Philatelic Collection.
An 1855 Swedish stamp previously held the auction record for a single stamp. It sold for $2.3m in 1996.
↧
کیا عراق تقسیم ہوجائے گا؟.....
اس میں کوئی شک نہیں کہ عراق کی قومی شناخت اب تک برقرار ہے اور معاملات کو درست کرنا زیادہ مشکل نہیں مگر وزیراعظم نوری المالکی کی پالیسیوں کے ہاتھوں ملک تقسیم کی حد تک جاسکتا ہے۔
ہم پہلے بھی سن چکے ہیں کہ عراق تباہی اور تقسیم کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اور یہ کہ فرقہ وارانہ بنیاد پر تقسیم تک نوبت جا پہنچی ہے اور القاعدہ کا عمل دخل بڑھ گیا ہے۔ اب ایسے ہی دعوے نئے سِرے سے سامنے لائے جارہے ہیں۔
وزیر اعظم نوری المالکی کے دوسرے دورِ حکومت میں دو ایسے عوامل ہیں جو غیر معمولی تشویش پیدا کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ ایک تو یہ کہ عراق میں سکیورٹی کی صورت حال بہت تشویشناک ہے۔ دہشت گردی کو روکنا آسان نہیں رہا۔ کوئی بھی گروپ کچھ بھی کرسکتا ہے اور کر رہا ہے۔ دوسرے یہ کہ سیاسی حلقے نوری المالکی پر زیادہ بھروسا کرنے کو تیار نہیں۔ پہلے دورِ حکومت میں نوری المالکی نے بیشتر معاملات میں اپنی مرضی چلائی تھی۔ اب لوگ اُن پر زیادہ بھروسا کرنے کو تیار نہیں۔ یہ دونوں معاملات اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ اگر حکومت نے بر وقت معاملات درست نہ کیے تو ملک میں شدید کشیدگی پھیلے گی اور بات ملک کی تقسیم تک بھی جاسکتی ہے۔
حال ہی میں ایبرل میں ’’مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ‘‘ کے زیراہتمام ایک مباحثے میں یہ بات سامنے آئی کہ نوری المالکی پر اعتماد کی سطح خطرناک حد تک گرچکی ہے۔ سیاسی اور معاشی اصلاحات کے ایجنڈے پر عمل نہیں ہوسکا ہے، جس کے نتیجے میں ان پر اعتبار کرنے والوں کی تعداد گھٹتی جارہی ہے۔ بہت سی وزارتیں اہم اشوز پر احکامات نہیں مان رہیں۔ خود نوری المالکی چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ اختیارات مرکز کے پاس رہیں۔ ایسی صورت میں علاقائی یا صوبائی حکومتیں پریشانی کا شکار رہیں گی۔ ان کے لیے فنڈنگ کا اہتمام بھی نہیں کیا جاتا۔ بہت سے علاقوں کو شکایت ہے کہ ان کی سکیورٹی اور ترقی پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جارہی۔
سُنی اور کُرد، اب بھی شیعہ کمیونٹی سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں، مگر وہ نوری المالکی پر بھروسا کرنے کو تیار نہیں۔ وہ نہیں مان سکتے کہ نوری المالکی انہیں مطلوبہ نتائج دے سکتے ہیں۔ سنی اکثریت والے مغربی صوبوں کی شکایات زیادہ ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ مرکزی حکومت ان کی بات سنے اور تعمیر و ترقی کے حوالے سے ان کے مطالبات تسلیم کیے جائیں۔ مغربی صوبوں میں مرکزی حکومت کا عمل دخل گھٹتا جارہا ہے۔ لوگ بغداد کی بات سننے کے لیے تیار نہیں کیونکہ اُن کا شکوہ ہے کہ مرکزی حکومت ان کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی نہیں لے رہی۔ دوسری طرف شام سے دراندازی بھی بڑھتی جارہی ہے۔ القاعدہ عناصر نے عراق کے مغربی صوبوں میں بہت سے مقامات اپنے کنٹرول میں کرلیے ہیں۔
کردوں کا معاملہ بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ کردوں نے اپنے علاقوں کو بہت حد تک خودمختار بنالیا ہے۔ انہوں نے کئی غیر ملکی کمپنیوں سے اپنے طور پر معاہدے کیے ہیں۔ تیل کی برآمد کے معاملے میں بھی کرد مرکزی حکومت کی ہر بات ماننے کے لیے تیار نہیں۔ اس روش نے کردوں اور بغداد کے تعلقات کشیدہ کردیے ہیں۔ مرکزی حکومت نے کرد علاقوں کے بہت سے منصوبوں میں فنڈنگ روک دی ہے۔ ان علاقوں کے ترقیاتی بجٹ میں اچھی خاصی کٹوتی کردی گئی ہے۔
کردستان ریجنل گورنمنٹ کے سربراہ مسعود برزانی نے انتباہ کیا ہے کہ اگر کردوں کے مفادات کو یونہی نظر انداز کیا جاتا رہا، تو وہ آزادی کا اعلان کردیں گے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کرد اگر ملک سے الگ ہوئے تو انہیں شدید نقصان سے دوچار ہونا پڑے گا۔ وہ سیاسی اور معاشی، دونوں اعتبار سے خسارے میں رہیں گے۔ یہی سبب ہے کہ مسعود برزانی کے انتباہ کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔
ایسا نہیں ہے کہ نوری المالکی کو تمام شیعہ حلقوں کی بھرپور حمایت حاصل رہی ہے۔ مقتدٰی الصدر نے خبردار کیا ہے کہ نوری المالکی کا دوبارہ انتخاب معاملات کو مزید خراب کرے گا۔ آیت اللہ سیستانی عام طور پر خاموش رہنا پسند کرتے ہیں مگر انہوں نے بھی اشارہ دیا ہے کہ نوری المالکی کو دھاندلی کے ذریعے دوبارہ اقتدار میں لانا ناقابل قبول ہوگا۔ اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ نوری المالکی پر اعتماد کی سطح خطرناک حد تک گرگئی ہے۔ ہر طرف سے یہ اشارہ دیا جارہا ہے کہ نوری المالکی کے اقتدار کا تسلسل عراق کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوگا۔
عراق میں کرپشن کی جو سطح ہے اور نوری المالکی نے جس طور تمام معاملات کو اپنے ہاتھ میں رکھا ہے، اُسے دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ وہ دوبارہ منتخب ہوں گے۔ کرپشن پر یقین رکھنے والوں کو نوری المالکی کی شکل میں بہترین سرپرست میسر ہوگا۔ قومی خزانے پر نوری المالکی اور ان کے رفقا کا مکمل کنٹرول ہے۔ سکیورٹی کے ذمہ دار ادارے بھی اُن کے ساتھ کام کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ ملک جس طرح کی صورت حال سے دوچار ہے اور سکیورٹی کا جو بھی معاملہ ہے، اُس نے ایسے حالات کو جنم دیا ہے جن کے تحت نوری المالکی کو اقتدار سے محروم کرنے والے ووٹنگ بلاک کی تشکیل انتہائی ناممکن ہوچکی ہے۔ معاشرے میں تقسیم در تقسیم کا عمل تیزی سے جاری ہے، جس کے نتیجے میں نوری المالکی پر اعتماد نہ کرنے والوں کے درمیان بھی تقسیم بڑھتی جارہی ہے۔ ان کے آپس کے اختلافات نے معاملات کو مزید بگاڑ دیا ہے۔
شام کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صورت حال بھی عراق پر بری طرح اثر انداز ہو رہی ہے۔ فرقہ وارانہ تقسیم بڑھتی جارہی ہے۔ شام میں سُنی اکثریت کے قتل عام نے عراق میں بھی دلوں میں فاصلے بڑھا دیے ہیں۔ شام میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے منفی اثرات عراق کے کئی صوبوں میں بھی رونما ہو رہے ہیں۔ ان میں انبار، نینوا اور صلاح الدین نمایاں ہیں۔ یہ تمام عوامل نظر انداز نہیں کیے جاسکتے۔ نوری المالکی کے لیے لازم ہے کہ اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کو مستحکم کرنے پر بھی توجہ دیں۔ فرقہ وارانہ کشیدگی کم کرنا انتہائی ناگزیر ہے۔ مگر اب تک اس حوالے سے اقدامات دکھائی نہیں دیے ہیں۔ صورت حال تیزی سے بگڑ رہی ہے۔ تیل کی دولت سے مالا مال خطوں میں کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ سنی علاقوں میں تیل کی تنصیبات خطرے میں ہیں۔ ایسے میں عراق کی مرکزی حکومت کو بہت کچھ بہت تیزی سے کرنا ہوگا اور وہ بھی پوری جامعیت اور قطعیت کے ساتھ۔
خطے کے بہت سے ممالک کو عراق کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ بالخصوص ایران کو یہ طے کرنا ہے کہ عراق نوری المالکی کی قیادت میں ایک خطرناک ملک کی حیثیت سے اپنا سفر جاری رکھے گا یا اس میں ایک ایسی حکومت کی راہ ہموار کی جائے جس میں معاشرے کے تمام طبقات کی حقیقی اور قابل قبول نمائندگی ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران نے ۲۰۱۰ء میں نوری المالکی کو دوسری مرتبہ اقتدار دلانے کے حوالے سے مداخلت کی تھی مگر اب مقتدٰی الصدر اور نجف کی طرف سے واضح اشارے ملے ہیں کہ ایرانی قیادت نوری المالکی سے مطمئن نہیں اور تیسری مدت کے لیے انہیں اقتدار میں دیکھنا پسند نہیں کرے گی۔
۲۰۰۳ء سے اب تک ایران اپنے پڑوس میں جاری ریس کے ہر گھوڑے کی حمایت کے معاملے میں غیر معمولی محتاط رہا ہے۔ اگر ایرانی قیادت محسوس کرے گی کہ نوری المالکی کی وزارتِ عظمیٰ اُس کے اپنے مفادات اور خطے کی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہی ہے تو یقینی طور پر وہ اُن سے گلو خلاصی چاہے گی۔
شام کے حالات نے عراقی معاشرے میں تقسیم کا عمل تیز اور وسیع کردیا ہے۔ بلقان کی طرز پر شام اور عراق کے بھی حصے بخرے ہونے تک معاملہ پہنچ سکتا ہے۔ شام کے مقابلے میں عراق کا کیس البتہ بہت مختلف ہے۔ شام تو واضح طور پر ایک ایسے مقام تک پہنچا ہوا لگتا ہے جہاں سے واپسی شاید اُس کے بس میں بھی نہیں اور ممکن بھی نہیں۔ عراق اب تک تقسیم کے حتمی مرحلے تک نہیں پہنچا۔ بہت کچھ درست کیا جاسکتا ہے مگر اِس کے لیے سیاسی عزم درکار ہے۔
↧
Tears of Waziristan
↧
Fashion
↧
↧
Rana Sanaullah Khan
Rana Sanaullah Khan is a Pakistani politician and government minister. He was born in Faisalabad and was first elected to the Provincial Assembly of the Punjab from PPP in 1990 and served as Deputy Leader of the Opposition. Leaving office in 1993, he returned there for the years 1997–1999 and 2002–2007. During the latter term he once again acted as Deputy Opposition Leader and also as Parliamentary Leader for the Pakistan Muslim League (Nawaz).[1]
Elected for a fourth term, and appointed as Minister for Law, Parliamentary Affairs and Public Prosecution, he has a legal background as an Advocate in the Supreme Court of Pakistan and claims to have been imprisoned on account of his principles.[1]In August 2011, he accused American Warren Weinstein of being an American spy although Weinstein had lived in Pakistan for seven years and there was no evidence that he was a spy. Weinstein went missing a week later and has not been heard from since.[2
↧
Help and Dua for Waziristan Displaced People
↧
باصلاحیت اذہان کیسے جمع کئے جائیں؟.......محمد بن راشد المکتوم
یہ 1968ء کی بات ہے جب میں برطانیہ کے مونس کیڈٹ اسکول میں زیر تعلیم تھا تو ایک دن مجھے اسپتال جانے کی ضرورت پڑ گئی۔ وہاں پر میری ملاقات ایک ڈاکٹر سے ہوئی جس کو روانی سے عربی بولتے دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی۔ جب مجھے پتہ چلا کہ وہ برطانیہ میں نیا نیا آیا ہے تو میں نے اس سے استفسار کیا کہ وہ یہاں عارضی قیام کرے گا یا مستقل سکونت اختیار کرنے کا ارادہ ہے تو اس نے ایک عربی کہاوت بیان کی کہ ’’میرا گھر وہی ہے جہاں مجھے کھانے کو ملے‘‘۔اس ڈاکٹر کے یہ الفاظ کئی سالوں تک میرے ذہن پر سوار رہے، کیوں کہ ان سے یہ پتہ چلتا تھا کہ ’’اپنے گھر‘‘ کے افسانوی تصور اور زندگی کے تلخ حقائق میں کتنا تفاوت ہے۔ یہی حقیقت باصلاحیت افراد کو اپنا گھر یعنی ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ وہ ڈاکٹر ذہین افراد کے انخلاء جس کو انگریزی میں ’’برین ڈرین‘‘ کہتے ہیں، کی ایک خاص مثال تھا۔ برین ڈرین کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک کو کئی عشروں سے مسائل درپیش ہیں۔ یہ ممالک اپنے محدود وسائل کو اس امید پر اپنے ڈاکٹروں، انجینئروں اور سائنسدانوں کی تعلیم پر خرچ کرتے ہیں کہ وہ ان ممالک کی ترقی میں معاون ثابت ہوں گے تاہم انہیں اس وقت مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب ایسے افراد اپنی صلاحیتوں سمیت مغربی ممالک میں جا کر آباد ہوتے ہیں۔یقیناً یہ ہر شخص کا حق ہے کہ وہ اپنی اچھی زندگی کے لئے دنیا کے کسی بھی ملک میں جا بسے۔ ہمیں معلوم ہے کہ صلاحیت ایک مقناطیس کی طرح موقع کی طرف لپکتی ہے تاہم جو ممالک پیچھے رہ جاتے ہیں ان کے لئے یہ ایک نہ ختم ہونے والا مکروہ سلسلہ بن جاتا ہے۔ ان ممالک کو ترقی کے مواقع پیدا کرنے کے لئے باصلاحیت افراد کی ضرورت ہوتی ہے لیکن دوسری طرف باصلاحیت افراد ترقی کے کم مواقع ہونے کی وجہ سے خوشحال مغربی زندگی کو ترجیح دیتے نظر آتے ہیں۔
اقوام متحدہ اور معاشی تعاون اور ترقی کی تنظیم ’’او ای سی ڈی‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2000ء کے بعد بیرون ملک کام کے لئے ہجرت کرنے کے رجحان کی شرح میں ایک تہائی اضافہ ہوا ہے۔ افریقہ میں یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہر نو میں سے ایک شخص مغرب میں کام کر رہا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر افراد واپس نہیں آئیں گے۔ ہنرمند افراد کے بیرون ملک قیام کے امکانات چھ گنا زیادہ ہیں تاہم اب ایک زبردست تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ چند ممالک میں ذہین افراد کی منتقلی کا عمل الٹ گیا ہے اور اس کی وجوہات دلچسپ ہیں۔ اب یہ امید پیدا ہو چکی ہے کہ ذہین افراد کی منتقلی کا سلسلہ بالآخر رک سکتا ہے جس سے ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کی معیشتوں میں مواقع اور امید کا توازن بدل سکتا ہے۔
دنیا میں پیشہ ورانہ رابطوں اور ملازمتوں کی فراہمی کے سب سے بڑے آن لائن نیٹ ورک ’’لنکڈ ان‘‘ نے اپنے ممبران کے ذریعے باصلاحیت افراد کی بین الاقوامی نقل و حرکت کو جانچا ہے۔ اس تحقیق کے مطابق میرا ملک متحدہ عرب امارات ذہین افراد کی پسندیدہ آماجگاہوں میں سر فہرست ہے۔ اس کے مطابق سال 2013ء میں ملک کی افرادی قوت میں باصلاحیت افراد کی شرح میں ایک اعشاریہ تین فیصد اضافہ ہوا ہے۔باصلاحیت افراد کے پسندیدہ ممالک میں سعودی عرب، نائجیریا، جنوبی افریقہ، بھارت اور برازیل شامل ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں باصلاحیت افراد کی آمد ایک تہائی سے بھی کم رہی۔ درحقیقت ایسے افراد کو دوسرے ممالک بھیجنے والوں میں سر فہرست اسپین، برطانیہ، فرانس، افریقہ، اٹلی اور آئرلینڈ ہیں۔ امیر ممالک جو ماضی قریب تک ہمارے روشن دماغوں کو اپنی طرف کھینچ رہے تھے اب اپنے لوگوں کو ہماری طرف بھیج رہے ہیں۔ظاہر ہے کہ صرف یہ ایک تحقیق کے نتائج ہیں اور کئی غریب ممالک ابھی تک باصلاحیت افراد کے انخلاء کے قدیمی مسئلے سے دوچار ہیں۔ ’’او ای سی ڈی‘‘ کے اعداد و شمار کے مطابق افریقہ اور لاطینی امریکہ کے کئی ممالک میں تعلیم یافتہ افراد کی بیرون ملک منتقلی کی شرح 50 فیصد سے زائد ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ برین ڈرین میں جتنا کردار معاشی مواقع کی دستیابی کا ہے اتنا ہی تحفظ کی خواہش کا ہے۔
مشرق وسطیٰ کے ممالک کے مسائل میں تنازعات اور عدم استحکام بھی شامل ہے۔ اگر قوم کے انتہائی باصلاحیت بیٹے اور بیٹیاں اپنے ملک میں کارکردگی دکھائیں تو وہ مسئلے کا حل بن سکتے ہیں اور ترقی کے ذریعے امن کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ اس امر کی وجہ سے اور بھی ضروری ہو گیا ہے کے ہم ترقی پذیر ممالک کی طرف سے باصلاحیت افراد کے انخلاء کا عمل الٹنے میں کامیابی کا جائزہ لیں۔ مواقع کی دستیابی سب سے اہم چیز ہے۔با صلاحیت افراد خود بخود ان ممالک کا رخ کرتے ہیں جو معاشی ترقی کا ماحول قائم کریں، کاروبار کو آسان بنائیں اور سرمایہ کاری کو فروغ دیں اور کامیابی کے رجحان کی نشوونما کریں۔باصلاحیت افراد کامیابی اور چیلنج کے مواقع ڈھونڈتے ہیں۔ اس سطح کے مواقع مغرب میں محدود ہوتے جا رہے ہیں مگر ترقی پذیر ممالک میں صورت حال مختلف ہے۔ کم از کم ان ممالک میں جہاں اچھی اور مضبوط گورننس کی لگن موجود ہے اور جو خوب سے خوب تر بننے کی خواہش رکھتے ہیں۔اس کے علاوہ معیار زندگی کی بھی بہت اہمیت ہے۔ گذشتہ نسل کے لوگ مغرب سے باہر کام کرنے کو ایک دقت سمجھتے تھے۔ آج متحدہ عرب امارات کا معیار زندگی دنیا میں بہترین گردانا جاتا ہے۔ ہم نے ثابت کیا ہے کہ باصلاحیت افراد کی منتقلی کے عمل کو الٹا جانا اور اپنے شہریوں کی زندگی کو بہتر بنانا ایک ہی سکّے کے دو رخ ہیں۔
آخر کار خوشی اور خوشحالی کا فروغ کسی بھی حکومت کا بنیادی کام ہے۔ ہماری کہانی خاص طور پر مشرق وسطیٰ کے لئے ایک امید کی کرن ہے کیوں کہ اس خطے میں تنازعات اور مایوسیوں نے بڑے پیمانے پر بیرون ملک منتقلی کو فروغ دیا ہے۔ میں نے ہمیشہ کہا کہ اچھی گورننس کے علاوہ عرب دنیا میں اختلافات اور مسائل کا حل بنیادی سطح پر ترقی اور معاشی مواقع کی فراہمی میں مضمر ہے۔ اب ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ ان عوامل کو روکا جا سکے جنہوں نے ماضی میں ہمارے باصلاحیت افراد کو ہم سے جدا کر دیا تھا۔ ایک اور اچھی بات یہ ہے کہ یہ تبدیلی جلد ممکن ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ چھوٹے ممالک برین ڈرین سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں لیکن ہم نے ثابت کیا ہے کہ متحدہ عرب امارات جیسے چھوٹے ملک اور تنازعات سے بھرپور خطے میں بھی ایک ’’امید کے جزیرے‘‘ کا قیام ممکن ہے لیکن میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ برین ڈرین کے الٹنے کا مطلب صرف صلاحیت کے انخلاء کو روکنا ہی نہیں بلکہ ایک مکروہ سلسلے کو ایک خوش آئند سلسلے میں تبدیل کرنا بھی ہے۔دنیا بھر سے بہترین صلاحیتوں کے حامل افراد کو اپنے ہاں لانے سے ہم ایک متحرک اور متفرق معاشرہ قائم کر سکتے ہیں جس سے جدت اور ترقی حاصل ہو گی اور یہ عمل مزید باصلاحیت افراد کو اپنی طرف کھینچے گا۔ اس کے لئے ہمیں لوگوں پر اعتماد کرنا ہو گا۔ انسان کے خیالات، خواب، تخلیقی صلاحیتیں مستقبل کا سرمایہ ہیں۔ اس طرح ذہانت کی واپسی بجائے خود ایک بڑی کامیابی نہیں بلکہ یہ ترقی کی ایک علامت ہے کیوں کہ جہاں آج عظیم لوگ موجود ہوں گے وہاں کل عظیم کمالات برپا ہوں گے۔(مصنف متحدہ عرب امارات کے نائب صدر، وزیر اعظم اور دبئی کے حکمران ہیں) ۔۔۔۔۔ بشکریہ روزنامہ 'جنگ'
↧