1955ء میں اٹلی اور سوئٹزرلینڈ کی حکومتوں نے یہ فیصلہ کیا کہ بالآخر اس مہم کا آغاز کیا جائے جو گزشتہ ایک صدی سے انجینئروں کا خواب بنی ہوئی تھی۔ انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ سڑک کی حامل ایک سرنگ بنائی جائے۔۔۔۔ سینٹ برنارڈ سرنگ۔۔۔ اور یہ سرنگ کوہ الپس سے نکالی جائے۔ مابعد اسی برس اٹلی نے فرانس کے ساتھ ایک دوسری اور طویل سرنگ تیار کرنے کا معاہدہ سر انجام دیا۔ اور یہ سرنگ الپس کے بلند ترین پہاڑ سے نکالی جانی تھی۔ اس پہاڑ کا نام مونٹ بلانک تھا جس کی بلندی 15776 فٹ ہے۔ یورپ میں ٹرانسپورٹ کے لیے یہ سرنگیں ناگزیر تھی اور ان کی جلد از جلد ضرورت درپیش تھی۔
الپس۔۔۔ جو فرانس۔۔۔ آسٹریا اور سوئٹزر لینڈ کے مابین شمال میں قدرتی رکاوٹ فراہم کرتا ہے۔ یہ یورپ کے پار تقریباً 600 میل تک پھیلا ہوا ہے اور اس کی چوڑائی کی حد 80 تا 150 میل ہے۔ اس پہاڑ میں16 درے ہیں اور موسم سرما میں اس میں سے اکثر دو سے کئی ہفتوں یا کئی مہینوں تک برف سے ڈھکے رہتے ہیں۔ درہ بریز نسبتاً کم بلندی پر واقع ہے، وہ اکثر موسم سرما میں آمدورفت کے لیے کھلا رہتا ہے۔ لیکن دیگر درے تین یا چار ماہ تک کے لیے بند رہتے ہیں۔ لہٰذا ایک طویل دورانیے تک کے لیے الپس کے پار بذریعہ سڑک آمد و رفت بند رہتی ہے اور موسم سرما میں کسی کار کو پہاڑیوں کے پار لے جانے کا محض ایک ہی راستہ باقی رہ جاتا ہے کہ اسے ریل گاڑی کے ذریعے سینٹ گوتھر ڈیا سمپلون سرنگوں کے ذریعے پار پہنچایا جائے۔
اس مسئلے کا واحد حل یہی تھا کہ پہاڑوں میں سڑک کی حامل سرنگیں تعمیر کی جائیں جو کہ برف سے متاثر نہ ہوں۔ سینٹ برنارڈ ضلع میں ایسی ہی ایک سرنگ کاٹنے کی کوشش تقریباً ڈیڑھ صدی پیشتر سرانجام دی گئی تھی جو کہ ناکامی کا شکار ہو چکی تھی۔ انجینئر حضرات اپنے منصوبوں میں تبدیلی لاتے رہے۔۔۔ کبھی ایک منصوبے کو زیرنظر رکھتے کبھی دوسرے منصوبے کو زیرغور لاتے تھے۔ بہت سے کاری گر بیمار پڑ گئے اور چند ایک موت سے بھی ہم کنار ہو گئے تھے۔ کاری گر پہاڑ کی جانب تقریباً ایک سو گز کے فاصلے پر محیط کھدائی کرتے لیکن یہ کام ان کے لیے اس قدر دقت طلب تھا کہ وہ تقریباً چھ ماہ بعد دل چھوڑ چکے تھے۔ اپنے اوزاروں سے دست بردار ہو جاتے اور اپنے گھروں کی راہ لیتے تھے۔ انجینئر یہ شکوہ کرتے تھے کہ مشکلات بے پناہ ہیں۔
کوئی بھی انسان الپس سے کوئی بھی سرنگ نہیں نکال سکتا۔ لیکن حالات نے جلد ہی ان کے اس دعوے کو غلط اور بے بنیاد ثابت کر دیا۔ پھر سینٹ گوتھرڈ ریلوے سرنگ نکالی گئی اور ان ہی پہاڑوں میں سے یہ سرنگ نکالی گئی۔ 1906ء میں ایک دوسری سرنگ سمپلون نکالی گئی اور پھر ایک اور کوشش سرانجام دیتے کی تیاریاں کی جا رہی تھیں یہ تیاری سڑک کی حامل سرنگ نکالنے کی تیاریاں تھیں۔ 1955ء میں اٹلی اور سوئٹزرلینڈ کی حکومتوں نے فیصلہ کیا کہ ایک سرنگ تعمیر کی جائے۔۔۔ سینٹ برنارڈ سرنگ۔۔۔ اور سرنگ کے دونوں سروں پر چھت کی حامل ایک طویل سڑک بھی تعمیر کی جائے یہ سڑک سوئٹزرلینڈ میں کینٹین ڈی پروز اور اٹلی میں سینٹ رہیمی کے درمیان واقع ہو۔
کل فاصلہ تقریباً 15 میل بنتا تھا۔ اس سرنگ میں داخل ہونے کی دونوں اطراف کی جانب انہوں نے گیراج، کار پارک، ٹیلی فون ایکسچینج، ڈاک خانہ، پولیس سٹیشن، کئی ایک انتظامی دفاتر، دکانیں اور ہوٹل بنانے کا منصوبہ بھی بنایا تھا۔ ملکوں میں نجی کمپنیاں تشکیل دی گئی تھیں تاکہ وہ اس پراجیکٹ سے نپٹ سکیں۔ اس منصوبے کی لاگت جزوی طور پر دونوں حکومتوں نے مہیا کی تھیں اور جزوی طور پر نجی اور سرکاری شعبے نے مہیا کی تھیں۔ اٹلی اور فرانس کی حکومتوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ بھی اپنے لیے ایک سرنگ تعمیر کریں۔۔۔مونٹ بلانک سرنگ۔۔۔ فرانس میں چامونکس اور اٹلی میں کور مئیر کے درمیان اس سرنگ کے دونوں سروں پر بھی چھت کی حامل سڑکیں تھیں جن کی لمبائی سات میل سے زیادہ تھی۔ ان دونوں سرنگوں کے تعمیراتی منصوبے 1957ء میں تیار کر لیے گئے تھے۔
اسی برس مختلف ممالک کی سروے سرانجام دینے والی ٹیمیں الپس آن پہنچی تھیں تاکہ دونوں پہاڑی ضلعوں کا سروے انجام دے سکیں اور ہر ایک سرنگ کی تعمیر کے لیے ایک صحیح اور مناسب نقشہ تیار کر سکیں۔۔۔ ایک وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے ہر ایک پہاڑ پر چڑھنے کا عمل ایک دقت طلب عمل تھا۔ سروے کرنے والے حضرات کے لیے یہ ضروری تھا کہ ان کی پیمائش اور تخمینہ جات اور حساب کتاب بالکل درست ہوں۔ چونکہ کھدائی سرانجام دینے والی ٹیموں نے پہاڑ کی دونوں مخالفت سمتوں سے کھدائی سرانجام دینی تھی لہٰذا یہ خدشہ موجود تھا کہ اگر سروئیر حضرات کے کام میں معمولی سی غلطی بھی پائی گئی تب ان دونوں مخالف سمت سے کھدائی کی جانے والی سرنگوں کا آپس میں ملنا مشکل ہو گا۔ بالآخر کئی ماہ تک کام سرانجام دینے کے بعد سروئیر حضرات کا کام اپنے اختتام کو پہنچ چکا تھا اور 1959ء میں دونوں سرنگوں کے تعمیراتی کام کا آغاز ہو چکا تھا۔ سینٹ برنارڈکی سرنگ کی تعمیر کے لیے تقریباً ایک ہزار کاری گر لگائے گئے تھے۔ سوئٹزر لینڈ اور اٹلی کے انجینئروں اور سڑکوں کی تعمیر کے ماہرین کی پارٹیاں جن کی تعداد بھی ایک ہزار کے لگ بھگ تھی انہوں نے پہلے پہاڑوں کی دونوں اطراف تک رسائی حاصل کرنے والی سڑکوں کی تعمیر کا کام سرانجام دیا۔
جب سڑک کی کٹائی کا اور بھرتی کا کام مکمل ہو گیا تو اس کے بعد کاری گروں نے سینکڑوں ٹن موٹی بجری بچھانے کا کام سر انجام دیا۔ سوئٹزر لینڈ کے حصے کی جانب کئی ایک پارٹیاں پاور ہاؤس کی تعمیر کے کام میں مصروف تھیں تاکہ سرنگ کے لیے حرارت اور روشنی مہیا کرنے کا بندوبست ہو سکے۔ تین برسوں تک کام کا سلسلہ چلتا رہا۔ آخر وہ دن آن پہنچا۔ انجینئرز نے سرنگ کی کھدائی کے کام کا آغاز کر دیا تھا۔ سوئٹزر لینڈ اور اٹلی کے انجینئر دونوں اطراف سے کھدائی کا کام کر رہے تھے۔ چٹانیں سخت تھیں۔ ایک دن میں تقریباً 25 سے 30 فٹ کھدائی ہوتی۔ اس کام میں کئی حادثات پیش آئے۔ دو سال سے زائد عرصے تک سوئٹزرلینڈ اور اٹلی کے انجینئر ایک دوسرے کی جانب کھدائی کرتے رہے۔
بالآخر اپریل 1962ء میں اہل سوئٹزر لینڈ اہل اٹلی سرنگ کے دونوں سروں کو آپس میں ملانے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ ایک جذباتی لمحہ تھا، خوشیوں سے لبریز۔ ابھی کچھ مراحل باقی تھے۔ آخر کار اسے 1964ء میں آمد و رفت کے لیے کھول دیا گیا۔ اس دوران فرانسیسی اور اٹلی کے انجینئروں نے مونٹ بلانک سرنگ بالکل اسی طریقے سے مکمل کی۔ مونٹ بلانگ سرنگ کو 1965ء کے موسم گرما میں آمد و رفت کے لیے کھول دیا گیا۔ سڑکوں کی حامل یہ دو سرنگیں دنیا کی بہترین سرنگوں میں سے ہیں۔ ان سے سفر کے طویل فاصلے سمت گئے اور وقت اور ایندھن کی بچت ہونے لگی۔