عین اس وقت جب صدر ٹرمپ تل ابیب کے بجائے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کے صہیونی منصوبے کی حمایت کا اعلان کرنیوالے تھے، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اسرائیل کے ناپاک ارادوں کے خلاف بھاری اکثریت سے قرارداد منظور کر کے مشرق وسطیٰ کو نذر آتش کیے جانے کے خدشات کے آگے بند باندھنے کی نہایت ہوشمندانہ کاوش کی ہے۔ دو روز قبل 6 کے مقابلے میں 151 ملکوں کی حمایت سے منظور ہونے والی اس قرارداد میں کہا گیا ہے کہ بیت المقدس میں اسرائیل کی جانب سے کسی بھی قسم کی کارروائی یا طاقت کا استعمال غیر قانونی ہو گا اور اس سے گریز کیا جانا چاہیے۔
اسرائیل، امریکہ اور کینیڈا کے علاوہ جن تین ملکوں نے اس قرارداد کیخلاف ووٹ دیا، ان میں مائکرو نیزیا، جزائر مارشل اور ناورونے جیسے غیر معروف ممالک شامل ہیں ۔ امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان کے بقول امریکی صدر اسرائیل میں امریکی سفارتخانے کی تل ابیب سے یروشلم منتقلی کا فیصلہ کریں گے۔ ٹرمپ کے اقدام سے خطے میں تشدد کی نئی لہر جنم لے سکتی ہے۔ عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل احمد ابوالغیط نے خبردار کیا ہے کہ سفارت خانے کی منتقلی سے دنیا کے استحکام پر منفی اثرات مرتب ہونگے.
جبکہ حماس نے واضح کر دیا ہے کہ بیت المقدس کے حوالے سے عالمی ضابطوں کی خلاف ورزی پر مبنی امریکہ کے اس اقدام کی بھرپور مزاحمت کرتے ہوئے نئی تحریک انتفادہ شروع کر دی جائے گی۔ اقوام متحدہ کے واضح فیصلے اور خود امریکی خفیہ اداروں کے انتباہ کے پیش نظر صدر ٹرمپ کو فی الفور یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کی حمایت مستقلاً منسوخ کرنے کا اعلان کرنا چاہئے ایسا نہ کرنے کا مطلب اقوام متحدہ کے فیصلے اور عالمی رائے عامہ کو ٹھکرانا، مشرق وسطیٰ کو دانستہ جنگ کے شعلوں میں جھونکنا اور عالمی امن کی تباہی کا خطرہ مول لینا ہو گا جو دنیا میں امن و استحکام کے قیام کی علم برداری کے دعوئوں سے ہرگز کوئی مناسبت نہیں رکھتا۔