پاکستان کے دفتر خارجہ نے سزا یافتہ جاسوس کلبھوشن یادیو کی اس کی ماں اور اہلیہ کے ساتھ اسلام آباد میں ملاقات کے حوالے سے بھارت کی تنقید کو سختی سے مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ بھارتی جاسوس کی بیوی کے جوتے میں کچھ تھا اور اس کو سکیورٹی کی بنیاد پر ضبط کر لیا گیا تھا۔ دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’ یادیو کی بیوی کے جوتے میں کچھ تھا اور اب اس کی تحقیقات کی جا رہی ہے‘‘۔ انھوں نے مزید کہا کہ ان کو متبادل جوتا مہیا کر دیا گیا تھا اور اس کے زیورات بھی ملاقات کے بعد لوٹا دیے گئے تھے۔ اس خاتون نے بھی اس کی تصدیق کی ہے کہ اس کو جوتے کے سوا سب کچھ واپس کر دیا گیا ہے۔
ڈاکٹر فیصل بھارتی حکومت کے ان الزامات کا جواب دے رہے تھے کہ یادیو کی ماں اور اہلیہ کی ملاقات کے دوران میں ثقافتی اور مذہبی حساسیت کو ملحوظ نہیں رکھا گیا تھا۔ سکیورٹی کے پیشگی حفاظتی اقدامات کے تحت ان کی بے توقیری کی گئی تھی۔ بھارت کی خارجہ امور کی وزارت نے یہ شکایت کی تھی۔ لیکن دفتر خارجہ نے اس دعوے کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ ’’ اگر بھارت کو فی الواقع کوئی سنجیدہ تشویش لاحق تھی تو مہمان یا بھارت کے ڈپٹی ہائی کمشنر کو اس ملاقات کے فوری بعد میڈیا کے سامنے اس کا اظہار کرنا چاہیے تھا‘‘۔
ڈاکٹر محمد فیصل نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ ’’ پاکستان الفاظ کی بے مقصد جنگ میں الجھنا نہیں چاہتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ یادیو کی والدہ نے میڈیا کے لیے جاری کردہ بیان میں پاکستان کا شکریہ ادا کیا تھا اور اپنے بیٹے سے ملاقات کو انسانی جذبہ خیر سگالی کا مظہر قرار دیا تھا۔ اس کے سوا کسی اور چیز ضرورت نہیں تھی‘‘۔ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو سے اس کی والدہ اور بیوی کی دفتر خارجہ، اسلام آباد میں سوموار کے روز قریباً چالیس منٹ تک ملاقات ہوئی تھی۔ ان کے درمیان شیشے کی دیوار حائل تھی ۔ انھوں نے انٹرکام کے ذریعے ایک دوسرے سے بات چیت کی تھی۔ اس موقع پر بھارت کے ڈپٹی ہائی کمشنر جے پی سنگھ بھی موجود تھے۔
انھوں نے پاکستان سے واپسی کے بعد نئی دہلی میں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج سے تین گھنٹے تک طویل ملاقات کی تھی اور انھوں نے مس سوراج کو یادیو سے اپنی بات چیت کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔ اس کے بعد بھارتی وزارت برائے امور خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ان کی خوف وہراس کے ماحول میں ملاقات ہوئی تھی اور انھیں ایک دوسرے سے کھل کر بات چیت کا موقع نہیں دیا گیا حتیٰ کہ جب یادیو کی والدہ نے اس سے مادری زبان میں بات کرنے کی کوشش کی تو انھیں روک دیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی را کے جاسوس کلبھوشن سدھیر یادیو کو ایک فوجی عدالت نے پاکستان میں تخریب کاری اور دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوّث ہونے کے الزامات میں قصور وار قرار دے کر سزائے موت سنائی تھی۔ اس نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے رحم کی اپیل کی تھی کہ اس کو سنائی گئی سزائے موت معاف کر دی جائے ۔
اس نے ایک ویڈیو بیان میں اقرار کیا تھا کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالسیس ونگ ( را) نے اس کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کی مختلف سرگرمیوں کو اسپانسر کیا تھا۔ اس نے خاص طور پر بلوچ علاحدگی پسندوں کو تشدد پر اکسایا تھا اور بلوچستان میں فرقہ ورانہ بنیاد پر دہشت گردی کے حملوں میں بھی اسی کا ہاتھ کار فرما تھا۔ اس علاقے میں دہشت گردی کی کارروائیوں کا مقصد عدم استحکام پیدا کرنا اور پاکستان کے عوام کے ذہنوں میں خوف پیدا کرنا تھا۔ مسٹر یادیو کے بہ قول کراچی میں سپرنٹنڈینٹ پولیس ( ایس پی) چودھری اسلم کے قتل میں بھی را ملوث تھی۔ اس نے بتایا تھا کہ بلوچستان میں پاک فوج کے ایک ذیلی ادارے فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن ( ایف ڈبلیو او) کے ورکروں پر حملوں، کوئٹہ، تربت اور بلوچستان کے مختلف شہروں میں بلوچ قوم پرستوں کے بارودی سرنگوں یا دھماکا خیز مواد کے ذریعے حملوں میں براہ راست را کا ہاتھ کار فرما تھا۔