ڈھاکہ میں نے بھی ڈوبتے دیکھا ہے۔ اس دن وہ ڈھاکہ مر گیا جہاں میں نے جنم لیا تھا، جہاں میں نے کرکٹ کے پہلے اور شاید آخری سبق لیے تھے کہ اسکے بعد کبھی کرکٹ کی فرصت ہی نہ ملی۔ اس دن میرا بچپن ایسا گیا کے پھر کبھی لوٹ کر نہ آیا اور زندگی بدل گئی۔ میرا شہر مجھ سے روٹھ گیا تھا اور ایسا روٹھا کہ میرا دشمن ٹھہرایا گیا۔ میں اسوقت سیکنڈ کیپیٹل اسکول میں ساتویں جماعت کا طالبعلم تھا۔ دسمبر میں امتحانات ہونے والے تھے سو اسکی تیاری بھی تھی۔ امتحانات کے بعد مجھے انعام بھی ملنے والا تھا اور میرے استاد کاظمی صاحب نے مجھے ملنے والی کتاب دکھائی بھی تھی۔ ابھی مجھے کتاب ملنے بھی نہ پائی تھیی کہ جنگ چھڑ گئی۔
جس دن جنگ چھڑی اس دن صدر یحییٰ خان کی تقریر کے دوران ہی مجھے دکان دوڑایا گیا تا کہ میں اپنے چھوٹے بھائی کیلیے دودھ کے ڈبے لا سکوں۔ جنگ چھڑنے سے کچھ پہلے ریڈیو پاکستان ڈھاکہ پر جنرل نیازی کو یہ پڑھتے سنا تھا اور میری والدہ اکثر گنگنایا کرتی تھیں اور شائد اب بھی گنگناتی ہوں کسے معلوم۔
ان سرحدوں کی جانب کبھی نظر اٹھا کر نہ دیکھنا کہ یاں سنتری کھڑے ہیں یاں بدر کا ہے عالم یاں حیدری کھڑے ہیں بعد ازاں میں عرصہ تک ان حیدریوں کو تلاشتا رہا پر کہیں نہ ملے۔
15 دسمبر کی شام مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس شام متحدہ پاکستان کا سورج آخری مرتبہ غروب ہوا تھا۔ 16 دسمبر کو بلاخر وہ کہانی ختم ھوئی جسکی ابتدا 14 اگست 1947 کو ہوئی تھی۔ گزشتہ کئی دنوں سے ڈھاکہ طرح طرح کی افواہوں کی زد میں تھا۔ ایک طرف خبر یہ اڑی تھی کہ بھارتی نیوی کا جہاز وکرم ڈوب گیا تھا تو دوسری طرف بھارتی سپہ سالار مانیک شا کا بھارتی ریڈیو پر بار بار یہ بیان نشر ہو رہا تھا جس میں پاکستانی افواج سے کہا جا رہا تھا کہ وہ ہتھیار ڈال دیں کہ اب ان کے پاس کوئی چارہ نہیں۔
میرے والد ڈھاکہ کے سب سے بڑے اخبار مارننگ نیوز میں کامرس ایڈیٹر تھے اور انہیں کچھ کچھ اندازہ تھا کہ کیا کچھ ہونے والا ہے۔ پر سرکاری پوزیشن ’اب بھی سب ٹھیک ہے تھا اور ہم ہر جگہ دشمنوں کے دانت کھٹے کر رہے ہیں۔ جنرل راؤ فرمان علی ان ہی دنوں ایک رات مارننگ نیوز آ پہنچے اور نیوز روم میں بیٹھ کر انہوں نے دل خوش کرنے والی باتیں کیں پر وہ باتیں ہی نکلیں۔ غالباً 15 کی صبح تھی۔ میرپور گیارہ نمبر میں لال میدان کے سامنے سول آرمڈ فورسیز کا ایک نوجوان آتا نظر آیا۔ اپنی صحافتی جبلت سے مجبور ھو کر ابا نے اس نوجوان کو روکا اور اس سے محاذ کی کیفیت پوچھی۔ اسکا جواب بہت حوصلہ افزا نہ تھا۔ نوجوان کا کہنا تھا کہ فوج اپنی مقدور بھر کوشش کر رہی ہے پر اب گولہ بارود کم پڑ رہا ہے۔ 16 دسمبر کی صبح خونچکاں تھی۔
میرپور کے لوگ جو بڑی حد تک اردو بولتے تھے اور جنہیں عرف عام میں بہاری یا پاکستانی کہا جاتا تھا، شہر کے دوسرے علاقوں سے ہو کر آئے تھے اور یہ کہہ رھے تھے کہ انہوں نے خود فوج کو سفید جھنڈا لہراتے جاتے دیکھا ہے۔ کوئی ماننے کو تیار نہ تھا بلکہ بعض جگہ تو ان کی پٹائی بھی ھوئی۔ پر دوپہر تک یہ حقیقت سب پر آشکار تھی۔ میں نے شام کے لمبے ہوتے ھوئے سایوں کے درمیان میرپور گیارہ نمبر کے بازار کے سامنے پیپل کے بڑے درخت کے نیچے ایک فوجی جوان کو پھوٹ پھوٹ کر روتے دیکھا تھا اور اسکی تصویر آج بھی میری آنکھوں کے سامنے گھومتی ہے۔
اسکے بعد تو دنیا ہی بدل چکی تھی۔ شہر کے جانے پہچانے لوگ چھپتے پھر رہے تھے۔ خود ہمارے گھر میں تیرہ چودہ خاندان رہ رہے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ان دنوں ھمارے گھر میں ابا کے دوست اور کولیگز بھی رہ رھے تھے۔ ان میں ایڈیٹر مارننگ نیوز ایس جی ایم بدرالدین اور ایڈیٹر پاسبان مصطفی صاحب بھی تھے۔ بدرالدین چچا کا انتقال گزشتہ ماہ کراچی میں ہوا۔ انہی دنوں بھٹو صاحب کی ایک تقریر نے میرپور اور محمد پور کے باسیوں کو بڑا حوصلہ دیا۔ بھٹو نے اپنی تقریر میں مجیب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ’یاد رکھنا یہ غیر بنگالی پاکستانی ھیں‘۔
مئی 72 میں ہم میرپور سے نکل کر اپنے دادا کے گھر رام کرشنا مشن روڈ آگئے۔ انہی دنوں بھٹو صاحب مشرق وسطی کے طوفانی دورے پر نکلے ہوے تھے۔ آنے کے دوسرے تیسرے روز ابا سے ملنے طاہر الدین ٹھاکر جو مجیب کی کابینہ میں انفارمیشن منسٹر بھی ہوئے تھے عوامی لیگ کے سوشل سیکریٹری مصطفی سرور اور صحافی محمد علی آئے اور اپنے ساتھ آم کا ایک بڑا ٹوکرا بھی لائے۔ میں کہہ نہیں سکتا کے اس آم کو دیکھ کر ہم تمام بھائیوں اور بہن کو کتنی خوشی ہوئی تھی کہ وہ ھمارے لیے موسم کا پہلا آم تھا۔
مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے کہ ابا سے بغلگیر ہوتے ہوے طاہر الدین ٹھاکر نے تقریباً روتے ھوئے بنگلہ میں کہا ’ارشد بھائی آپ بھی کچھ نہیں کر سکے‘۔ یہ سوال میری سمجھ سے باہر تھا۔ عرصہ بعد میں نے بابا سے اسکی تفصیل جاننی چاہی تو اسکا جواب دل کو خون کے آنسو رلانے کو کافی تھا۔ ہر عوامی لیگی شاید پاکستان کے خاتمے کا خواہشمند نھیں تھا۔